مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 886

حضرت سعد بن معاذ کی فضیلت

راوی:

وعن أنس قال : لما حملت جنازة سعد بن معاذ قال المنافقون : ما أخف جنازته وذلك لحكمه في بني قريظة فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " إن الملائكة كانت تحمله " . رواه الترمذي

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ کا جنازہ اٹھا کر لوگ چلے ( اور ان کو وہ جنازہ ہلکا لگا ) تو منافقوں نے کہا کہ اس کا جنازہ کتنا ہلکا اس فیصلہ کی وجہ سے ہے جو اس نے بنوقریظہ کے بارے میں دیا ہے تھا ۔ منافقوں کی یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کے جنازے کو فرشتے اٹھائے لئے جا رہے تھے ۔ " (ترمذی )

تشریح :
اس فیصلہ کی وجہ سے ہے " قصہ یہ ہوا تھا کہ مدینہ کے یہودیوں کے قبیلہ " بنو قریظہ " نے جب عزوہ خندق (ذیقعدہ ٥ھ ) کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی اور اعتماد شکنی کا بدترین مظاہر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ سے فارغ ہوتے ہی بنوقریظہ کو رخ کیا اور ان کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا تاکہ ان کی مسلسل ریشہ دوانیوں ، سازشوں اور بدعہدیوں کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا جائے ، بنوقریظہ کے یہودی نہ تو اپنے قلعہ سے باہر آکر مجاہدین اسلام کے مقابلہ کی ہمت پاتے تھے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرنے پر آمادہ تھے ۔ آخر کار جب یہ محاصرہ پچیس روز تک جاری رہا اور قلعہ کے اندر محصور یہودیوں کو کوئی راہ نجات نظر نہیں آئی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ کو اس شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ ہمارے لئے جو سزا تجویز کریں وہی سزا ہم کو دی جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرمالیا اور حضرت سعد بن معاذ کو حکم دیا کہ ان کے حکم میں ازراہ عدل وانصاف جو سزا ہم کو دی جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرما لیا اور حضرت سعد بن معاذ نے معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد فیصلہ سنایا کہ : بنوقریظہ کے تمام مرد قتل کردئیے جائیں ان کی عورتوں اور ان کے بچوں کے ساتھ اسیران جنگ کا سلوک کیا جائے اور ان کے اموال واملاک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلہ پر عمل کیا اور حضرت سعد بن معاذ سے فرمایا کہ تمہارا یہ فیصلہ حق تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ہے جو اس نے ساتوں آسمانوں کے اوپر صادر کیا ۔ پس جب حضرت سعد بن معاذ کا انتقال ہوا اور ان کا جنازہ لے جایا جانے لگا تو ان منافقین نے کہ جو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام سے پوشیدہ دشمنی اور دشمنان دین سے خفیہ ساز باز اور ہمدری رکھتے تھے ، حضرت سعد بن معاذ کے متعلق زبان اعتراض کھولنے کاموقع پایا اور ان پر طعن کیا کہ سعد یہ جنازہ اس سبب سے ہلکا پڑ گیا ہے کہ انہوں نے بنوقریظہ کے بارے میں غیر منصفانہ فیصلہ دیا تھا ۔ گویا ان منافقین نے حضرت سعد کی طرف ظلم کی نسبت کی اور ان کے فیصلہ کو ایک ظالمانہ فیصلہ قرار دیا ، حالانکہ یہ ان منافقوں کا خبث باطن تھا جوانہوں نے اسلام اور مسلمانوں سے عناد کے تحت حضرت سعد کے نہایت موزوں اور مبنی برحقیقت فیصلہ کو ظالمانہ فیصلہ سمجھا اور ان کے جنازہ کے سبک ہونے کو مذکورہ فیصلہ سے جوڑ کر نہایت بیہودہ اور لغوبات کہی ۔
" ان کے جنازہ کو فرشتے اٹھائے لئے جا رہے تھے " یعنی سعد کے جنازہ کا سبک وہلکا ہونا اس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتا جو ان جاہل منافقوں کے ذہن میں ہے اور جس کا اظہار بھی انہوں نے کیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ سعد کے جنازہ کو اٹھا کر چلنے والوں میں فرشتے بھی شامل تھے اور چونکہ وہ جنازہ فرشتوں نے اٹھا رکھا تھا اس لئے لوگوں نے ہلکا اور سبک لگ رہا تھا ۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ میت کا (نعش کا ہلکا وسبک ہونا بذات خوداچھی علامت ہے جب کہ اس کا بھاری لگنا کچھ اچھی علامت نہیں سمجھا جاتا ۔ عارفین کا کہنا ہے کہ میت کا بھاری ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص دنیا میں زیادہ رغبت وتعلق رکھتا تھا جب کہ میت کا ہلکا اور سبک ہونادنیا سے اس کی بے رغبتی ، آخرت اور مولیٰ کے تئیں اس کے کمال اشتیاق اور مقصد اعلی کی طرف اس کی روح کے جلد پرواز کرنے کو ظاہر کرتا ہے ، بہرحال منافقوں نے مذکورہ بات چونکہ حضرت سعد کی حقارت وسبکی ملحوظ رکھ کر کہی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح جواب دیا کہ جنازہ کے ہلکا ہونا وسبک ہونے سے حضرت سعد کی شان وحیثیت کا بڑھنا اور ان کی عظمت کا ظاہر ہونا لازم آجائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ (للہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لایعلمون (عزت تو اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے رسول کے لئے اور مؤمن بندوں کے لئے لیکن منافق نہیں جانتے )

یہ حدیث شیئر کریں