شیخین اور ابن مسعود کی فضیلت
راوی:
عن أبن مسعود عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " اقتدوا باللذين من بعدي من أصحابي : أبي بكر وعمر واهتدوا بهدي عمار وتمسكوا بعهد ابن أم عبد " . رواه الترمذي
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم ان دونوں کی پیروی جو میرے صحابہ میں سے ہیں اور میرے بعد خلیفہ ہوں گے ، وہ ابوبکر اور عمر ہیں ، عمار بن یاسر کی سیرت اور ان کی راہ روش اختیار کرکے سیدھی سچی راہ پر چلو اور ام عبد کے بیٹے ( عبداللہ ابن مسعود ) کے عہد کو مضبوط پکڑو اور ایک دوسری روایت میں ، جو حضرت حذیفہ سے مروی ہے " ام عبداللہ کے بیٹے کے عہد کو پکڑو " کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ : ابن مسعود تم سے جو حدیث بیان کریں (اور دین کے احکام ومسائل سے متعلق جو بات بتائیں ) اس میں ان کو راست گو جانو۔ " (ترمذی )
تشریح :
اور میرے بعد خلیفہ ہوں گے " یہ ترجمہ حضرت شیخ عبد الحق کے ترجمہ کے مطابق ہے ۔ جب کہ ملا علی قاری کے مطابق ترجمہ یوں ہونا چاہئے کہ : تم میری وفات کے بعد یا میری پیروی کے بعد ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے صحابہ میں سے ہیں اور وہ ابوبکر وعمر ہیں پس نحوی اعتبار سے ابوبکر و عمر بدل یا بیان ہم الذین کا ۔
" سیدھی سچی راہ پر چلو " واضح ہو کر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے تعلق سے تو " اقتدا " کا لفظ لایا گیا ہے جب کہ حضرت عماربن یاسر کے تعلق سے " اہتدا " کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے اقتداء میں اہتداء سے زیادہ عمومیت ہے بایں جہت کہ " اقتداء " میں قول اور فعل ، دونوں کا لحاظ ہوتا ہے جب کہ " اہتدا " کا تعلق صرف فعل سے ہوتا ہے گویا اقتداء تو مطلق پیروی کرنے کو کہتے ہیں خواہ فعل میں ہو یا قول میں اور اہتداء فقط فعل کی پیروی کو کہتے ہیں ۔
حدیث کے ان الفاظ میں نہ صرف یہ کہ حضرت عمار بن یاسر کی فضیلت وکمال کو ذکر ہے کہ ان کا کوئی بھی فعل وعمل جادہ حق سے ہٹا ہوا نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ اس سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا برحق اور مبنی برصداقت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ امیر المؤمنین حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان جو معرکہ آرائی پیش آئی تھی اس میں حضرت عمار سیدنا حضرت علی کے ساتھ تھے ۔
" ام عبد کے بیٹے کے عہد " میں " عہد " سے مراد قول اور وصیت ہے ، یعنی عبداللہ ابن مسعود دینی احکام ومسائل میں جو بات کہیں اور جو تلقین و وصیت کریں اس کو پلے باندھ لو اور اس پر پوری طرح عمل کرو ، چنانچہ یہی وہ حکم رسول ہے جس کو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اپنی فقہ کی ایک مضبوط بنیاد بتایا ہے ۔ استنباط مسائل میں حضرت امام اعظم ، خلفاء اربعہ کے بعد تمام صحابہ میں سے سب سے زیادہ جس صحابی کی روایت اور قول کو اختیار کرتے ہیں وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہیں جس کے کمال فقاعت اور اخلاص وصیت میں کسی کوشبہ نہیں تورپشتی نے بھی عہد کے تقریبا یہی معنی بیان کئے ہیں لیکن انہوں نے اپنے نزدیک اس بات کو اولی قرار دیا ہے کہ " ام عبد کے عہد " سے مراد " خلافت " کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود کی رائے اور ان کا فیصلہ " ہے گویا اس ارشاد رسالت کے ذریعہ امت کو ہدایت کی گئی کہ وصال نبوی کے بعد خلافت کے بارے میں عبداللہ ابن مسعود اپنی جس رائے اور جس فیصلہ کا اظہار کریں اسی سے تم سب لوگ رہنمائی حاصل کرو، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت کی حقانیت و صحت کی گواہی سب سے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود ہی نے دی اور تمام اکابر صحابہ کی رائے اور مشورہ خلافت صدیق کے قیام میں شامل رہا ، ان کی گواہی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ استحقاق خلافت میں ہم اس ہستی کو پیچھے کیسے رکھ سکتے ہیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے مرض وفات میں ہماری نماز کی امامت کے لئے ) آگے کیا تھا یہ ممکن ہی نہیں کہ جس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (امامت نماز کی صورت میں ) ہمارے دینی پیشوائی کے لئے منتخب کیا تھا اس کو ہم (بصورت خلافت ) اپنی دنیاوی قیادت کے لئے منتخب نہ کریں ۔ اسی طرح کا مضمون سید نا علی کرم اللہ وجہہ سے بھی منقول ہے ، بہرحال حدیث کے اول اقتدوا بالذین من بعد ای ابوبکر وعمر اور آخری جز تمسکوا بعہد ابن ام عبد کے درمیان جو مناسبت ہے اس کو تو تورپشتی کے اسی قول کی تائید ہوتی ہے ۔ لیکن دوسری روایت میں حضرت حذیفہ نے جو الفاظ نقل کئے ہیں ان سے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ" عہد " سے مراد " قول اور وصیت " ہے ۔