اصحاب بدر کا مرتبہ
راوی:
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيل " . وكان أول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج ثم تتام الناس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كلكم مغفور له إلا صاحب الجمل الأحمر " . فأتيناه فقلنا : تعال يستغفر لك رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لأن أجد ضالتي أحب إلي من أن يستغفر لي صاحبكم . رواه مسلم
وذكر حديث أنس قال لأبي بن كعب : " إن الله أمرني أن أقرأ عليك " في " باب " بعد فضائل القرآن
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (حدیبیہ کے سفر کے دوران ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ ثنیۃ المرار پر جو چڑھے گا اس کے گناہ اسی طرح معاف کر دیئے جائیں گے جیسے اسرائیل کے گناہ معاف کردئیے گئے تھے " تو سب سے پہلے جو لوگ اس (ثنیۃ المرار ) پر چڑھے وہ ہمارے گھوڑے یعنی قبیلہ خزرج کے (گھوڑ سوا ر) تھے ۔ اس کے بعد آگے پیچھے سب لوگ چڑھے ۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب کو بخش دیا گیا علاوہ اس شخص کے جو سرخ اونٹ والا ہے (یعنی منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی ) (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر ) ہم اس (سرخ اونٹ والے شخص یعنی عبداللہ بن ابی ) کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ آؤ ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارے حق میں بخشش ومغفرت کی درخواست کریں ، مگر وہ (بدبخت ) بولا حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی گم شدہ چیز پاجاؤں ، یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے کہ تمہارے صاحب میرے لئے بخشش ومغفرت چاہیں ۔ (مسلم ) اور حضرت انس کی حدیث قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لابی بن کعب ان اللہ امرنی ان اقرء علیک فضائل قرآن " کے بعد والے باب میں نقل کی جاچکی ہے (یعنی صاحب مصابیح نے اس حدیث کو یہاں اس باب میں نقل کیا تھا لیکن اس حدیث میں چونکہ قرآن کا ذکر تھا اس لئے مؤلف مشکوٰۃ نے اس کو وہاں نقل کیا ہے) ۔ ' '
تشریح :
" ثنیۃ المرار" میں " ثنیۃ " سے مراد پہاڑ کے درمیان (گھاٹی ) کا راستہ ہے ۔ اور مرار ) ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان اس راستہ پر واقع ہے جو حدیبیہ کو ہو کر گزرتا ہے ۔ یہ ارشاد گرامی اس وقت کا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٦ھ میں عمرہ کی نیت سے مکہ کو روانہ ہوئے تھے لیکن حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر رک گئے تھے اور " صلح حدیبیہ " کا مشہور واقعہ پیش آیا تھا ، اسی سفر کے دوران جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ رات میں " ثنیۃ المرار " (مرار کی گھاٹی ) پر پہنچے تو لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے ۔ اور حوصلہ بڑھانے کی ضرورت یا تو اس لئے پیش آئی تھی کہ وہ گھاٹی نہایت دشوار گزار تھی اور اوپر چڑھنا کوئی آسان کام نہیں تھا ، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ یہ اندیشہ تھا کہ اس گھاٹی کے پیچھے شاید اہل مکہ گھاٹ لگائے بیٹھے ہوں اور منصوبہ بند طریقہ سے رات کی تاریکی میں اچانک حملہ آور ہوجائیں اس لئے صورت حال کی ٹوہ لینا ضروری تھا اور اس مقصد کے لئے اوپر چڑھنا ظاہر ہے جان جوکھوں کا کام تھا ۔
" جیسے بنی اسرائیل کے گناہ معاف کر دیئے تھے " ان الفاظ کے ذریعہ بنی اسرائیل سے متعلق قرآن کریم کے ان الفاظ : وقولوا حطۃ نغفرلکم خطایا کم کی طرف اشارہ ہم ۔ اصل قصہ یوں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل میدان تیہ میں چالیس سال تک پریشان وسرگرداں پھرتے رہے ، جہاں اللہ تعالیٰ نے ازراہ کرم وعنایت ان کو بادل کا سایہ مہیا کیا اور ان کے کھانے کو من وسلوی نازل فرمایا اور پھر ان کو ملک شام کے ایک شہر " اریحا " جانے کا حکم دیا گیا ۔ اس وقت ان کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اس شہر میں داخل ہوتے وقت عجز وانکساری اور فروتنی اختیار کرنا اور حطۃ (توبہ ہے ، توبہ ہے ) کہتے ہوئے داخل ہونا ، اگر تم نے ہماری اس ہدایت پر عمل کیا اور توبہ انابت اور استغفار کرتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تو ہم تمہارے پچھلے گناہوں کو معاف کردیں گے اور تمہیں مغفرت وبخشش سے نوازینگے ۔ لیکن بنی اسرائیل نے نہ صرف یہ کہ اس خدائی حکم وہدایت پر عمل نہیں کیا بلکہ یہ شرارت بھی کی کہ شہر میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اس لفظ کو جو طلب توبہ واستغفار کے معنی رکھتا تھا ، بدل کر ایک ایسا لفظ بولنے لگے جو ان کی دنیاوی طلب وخواہش کے معنی رکھتا تھا ، اس کی پاداش میں ان پر طاعون کا سخت عذاب نازل کیا گیا جس نے ان کو ستر ہزار آدمیوں کو ہلاک کرڈالا پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ " جیسے بنی اسرائیل کے گناہ معاف کردئیے گئے تھے " تو گناہ معاف کئے جانے سے مراد " گناہ معاف کرنے کا وعدہ ہے " گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح بنی اسرائیل سے مغفرت کا وعدہ کیا گیا تھا اور اگر وہ اس وقت خدائی حکم وہدایت پر عمل کرلیتے تو ان کے تمام گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔
" وہ ہمارے گھوڑے یعنی قبیلہ خزرج" " خزرج" انصار مدینہ کا ایک قبیلہ تھا اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے یہ بات پہلے بتائی جاچکی ہے کہ " اوس " اور خزرج " دو بھائی تھے اور آگے چل کر ان دونوں کی اولاد اور نسلیں دد الگ الگ قبیلوں میں تبدیل ہوگئیں اور یہ دونوں قبیلے اپنے اپنے مورث اعلی کے نام سے موسوم ہوئے ۔ چنانچہ انصار مدینہ میں سے کچھ لوگ تو قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور کچھ لوگ قبیلہ خزرج سے ۔
" میں اپنی گم شدہ چیز پاجاؤں" بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عبداللہ بن ابی کا وہی سرخ اونٹ ادھر ادھر ہوگیا ہوگا ، یا اس کی کوئی اور چیز گم ہوگئی ہوگی ۔ چنانچہ صحابہ نے اس سے کہا کہ چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ تمہارے حق میں بھی استغفار کریں اور تمہاری بخشش کی دعا کریں تو اس نے نہایت بے اعتنائی سے کہا کہ اس وقت تمہارے صاحب ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس مجھے جانے کی فرصت کہاں ہے ، اپنی گم شدہ چیز کو تلاش کرنا اور پالینا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ اہم اور زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں طلب مغفرت کے لئے تمہارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں ، عبداللہ ابن ابی کے یہ الفاظ یقینی طور پر اس کے صریح کفر کے غماز تھے ۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ وہ خبث باطن کے سبب راندہ درگاہ ہی رہا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی کی طرف اشا رہ کرتے ہوئے فرمایا :
واذا قیل الہم تعالوا یستغفر لکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لووا رء وسہم ورایتہم یصدون وہم مستکبرون سواء علیہم استغفرت لہم ام لم تستغفرلہم لن یغفر اللہ لہم ۔ (الا یۃ)
" اور جب ان (منافقوں ) سے کہا جاتا ہے کہ آؤ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو ) تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے استغفار کردیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھیں گے کہ وہ (اس ناصح سے اور تحصیل استغفار سے ') تکبر کرتے ہوئے بے رخی کرتے ہیں ۔ (جب ان کے کفر کی یہ حالت ہے تو) ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں خواہ ان کے لئے استغفار کریں یا ان کے لئے استغفار نہ کریں ۔ (اور) اللہ تعالیٰ ہرگز ان کی مغفرت نہیں فرمائیں گے ۔ "