مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 874

حاطب بن ابی بلتعہ کا واقعہ

راوی:

وعن علي رضي الله عنه قال : بعثني رسول الله صلى الله عليه و سلم أنا والزبير والمقداد – وفي رواية : أبا مرثد بدل المقداد – فقال : " انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوا منها " فانطلقنا تتعادى بنا خيلنا حتى أتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة قلنا لها : أخرجي الكتاب قالت : ما معي كتاب . فقلنا لتخرجن الكتاب أو لتلقين الثياب فأخرجته من عقاصها فأتينا به النبي صلى الله عليه و سلم فإذا فيه : من حاطب بن أبي بلتعة إلى ناس من المشركين من أهل مكة يخبرهم ببعض أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا حاطب ما هذا ؟ " فقال : يا رسول الله لا تعجل علي إني كنت امرأ ملصقا في قريش ولم أكن من أنفسهم وكان من معك من المهاجرين من لهم قرابات يحمون بها أموالهم وأهليهم بمكة فأحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم يدا يحمون بها قرابتي وما فعلت كفرا ولا ارتدادا عن ديني ولا رضى بالكفر بعد الإسلام . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنه قد صدقكم " فقال عمر : دعني يا رسول الله أضرب عنق هذا المنافق . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنه قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر فقال : اعملوا ما شئتم فقد وجبت لكم الجنة " وفي رواية فقد غفرت لكم " فأنزل الله تعالى [ يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء ] . متفق عليه

اور حضرت علی کرم اللہ علیہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو، زبیر کو اور مقداد کو اور ایک روایت میں مقداد کے بجائے ابومرثد کا ذکر کیا ۔ روانگی کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم لوگ (تیز رفتاری سے ) سفر کرکے روضہ خاخ پہنچو ، وہاں ایک عورت ملے گی جو اونٹ کی سواری پر کجاوہ میں بیٹھی ہوگی ، اس کے پاس ایک خط ہوگا، تم لوگ وہ خط اس سے حاصل کر کے لے آؤ ۔ چنانچہ ہم (فورًا ) روانہ ہوگئے ۔ اور اپنے گھوڑوں کو تیزی سے دوڑاتے ہوئے روضہ خاخ پہنچے اور اس عورت کو جالیا ۔ ہم نے (اس عورت سے ) کہا لاؤ ، خط نکال کر ہمارے حوالہ کرو! وہ عورت بولی : میرے پاس کوئی خط وط نہیں ہے ۔ ہم نے (ذرا تیز ہو کر ) کہا : تو خط نکالتی ہے یا ہم تیرے کپڑے اتروائیں (یعنی اگر تونے خط نکال کر نہیں دیا تو مجبورًا تجھ کو ننگی کرنا پڑے گا تاکہ وہ خط برآمد ہوجائے ) تب اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر ہمارے حوالہ کردیا اور ہم اس خط کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، (جب وہ خط کھول کر دیکھا گیا تو ) اس میں لکھا تھا : حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ میں مشرکین کے نام ، اور پھر آگے حاطب نے مشرکین مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اہم اقدامات اور منصوبوں کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حاطب کو طلب کیا اور اس سے ) فرمایا ارے حاطب !یہ کیا ہے ؟ (مجھے بتا تونے یہ کیا حرکت کی ہے اور کیوں کی ہے ) حاطب بولا ، یا رسول !میرے بارے میں عجلت نہ کیجئے (یعنی میری پوری بات سنے بغیر اس حرکت کی پاداش میں میرے متعلق کفر اور سزا کا فیصلہ نہ کیجئے ) دراصل میں ایک ایسا شخص ہوں جو قریش کے لوگوں میں باہر سے آکر مل گیا ہے (یعنی قریش سے میرا کوئی نسبی اور قرابتی تعلق نہیں ہے ، بلکہ باہر سے آکر ان میں شریک ہوگیا ہوں اور محض ان کا حلیف ہوں ، جب کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو (دوسرے ) مہاجرین ہیں وہ مکہ والوں سے قرابت رکھتے ہیں اور مشرکین مکہ اس قرابت کا لحاظ کرکے مکہ میں ان مہاجرین کے مال وجائداد اور ان کے اہل وعیال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں ، پس اس بناء پر کہ میرے اور مشرکین مکہ کے درمیان نسبی وقرابتی تعلق معدوم ہے میں نے چاہا کہ ان کے لئے کوئی ایسا کارنامہ انجام دوں جس کے بدلے میں وہ مکہ میں میرے قرابتداروں کی حفاظت کریں (آپ کو صدق دل سے یقین دلاتا ہوں کہ) میں نے یہ حرکت اس وجہ سے نہیں کی کہ میں (سرے سے دائرہ ایمان واسلام میں داخل ہی نہیں ہوا تھا اور ) کافر ہوں ، نہ اس وجہ سے کہ میں (پہلے مسلمان تو ہوگیا تھا لیکن اب دائرہ اسلام سے نکل گیا ہوں اور نہ اس وجہ سے کہ اسلام کے بعد اب کفر مجھ کو اچھا لگتا ہے (اور نور ایمان سے تعلق توڑ کر کفر کے اندھیرے میں جانا چاہتا ہوں ) (حاطب کا یہ پورا بیان سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے ) فرمایا : اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حاطب نے تمہارے سامنے بالکل سچابیان دیا ہم (حقیقت حال یہی ہے جو اس نے بتائی ہے ) لیکن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ کو اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑادوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اس طرح مت سوچو اور ) اس حقیقت پر نظر رکھو کہ حاطب غزوہ بدر میں شریک ہوا ہے (اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے ہوں گے کہ یہ اگر غزوہ بدر میں شریک ہوا ہے تو ہوا کرے ۔ اب تو اس نے جاسوسی کر کے گویا غداری کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر قرار واقعی سزا کا مستوجب ہوگیا ہے ۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوگا ) اور تمہیں حقیقت حال کا کیا علم ہے (یعنی تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو کہ حاطب مستوجب قتل ہوگیا ہے ) ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو اپنی خصوصی نظر و کرم ومغفرت سے نواز رکھا ہو ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ " تم جو چاہو کر و ، حقیقت تو یہ ہے کہ جنت تمہارے لئے واجب ہوگئی ہے " اور ایک روایت میں ( تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے کہ بجائے ) یہ ہے کہ " میں تم کو بخش چکا ہوں " اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے (حاطب اور اس جیسے لوگوں کو اس طرح مذموم حرکت کے خلاف متنبہ کرنے کے لئے ) یہ آیت نازل فرمائی (جس کا ترجمہ ہے : ) اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمنوں کو (یعنی وہ لوگ کہ جن کو میں دشمن رکھتا ہوں یا جن سے تم دشمنی رکھتے ہو، ان کو ) اپنا دوست نہ سمجھو الخ ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
مقداد کے بجائے ابومرثد کا ذکر ہے " یعنی اس روایت میں تو یہ ہے کہ اس مہم پر بھیجے جانے والوں میں حضرت علی کے ساتھ حضرت زبیر، اور حضرت مقداد ، تھے ، جب کہ دوسری روایت میں حضرت علی کے ساتھ حضرت زبیر ، اور حضرت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بھیجا جانا مذکور ہے ، بہرحال حضرت مقداد تھے عمروکندی کے بیٹے ہیں ۔ نہایت قدیم الا سلام ہیں، ایک روایت کے مطابق یہ چھٹے مسلمان ہیں، ان سے پہلے صرف پانچ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا ان کا انتقال ٣٥ھ میں مدینہ سے تین کوس کے فاصلہ پر مقام جوف میں ہوا اور ان کا جسد خاکی وہاں سے مدینہ منورہ لا کر بقیع میں دفن کیا گیا اس وقت ان کی عمر ٧٠سال تھی ۔ اور حضرت ابومرثد بھی جو حصین غنوی کے بیٹے ہیں ، کبار صحابہ میں سے ہیں غزوہ بدر میں انہوں نے بھی شرکت کی تھی اور ان کے بیٹے حضرت مرثد بھی شریک تھے ، ابن سعد نے لکھا ہے کہ : حضرت مرثد غزوہ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق اور دوسرے تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے ان کا انتقال مدینہ میں بعہد خلافت ابوبکر ١٢ ھ میں کے وقت چھیاسٹھ برس کے تھے ۔
" روضہ خاخ پہنچو" روضہ خاخ " ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے مکہ کے راستہ پر مدینہ کے قریب ہی واقع ہے دراصل " روضہ " تو باغ اور سبزہ زار کو کہتے ہیں اور " خاخ " ایک پھل " شفتالو" کہا جاتا ہے اس مقام پر شفتالو کے درخت بہت تھے اس مناسبت سے وہ جگہ " روضہ خاخ ' کے نام سے جانی جاتی ہے ۔
" وہاں ایک عورت ملے گی " اس عورت کا نام" سارہ " تھا اور بعض حضرات نے ام سارہ لکھا ہے وہ قریش میں کی ایک آزاد کردہ باندی تھی اور مشرکین مکہ کے نام ایک خط لے کر مکہ کو جارہی تھی ، یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ ثابت ہوا کہ جاسوسی کی اتنی بڑی کاروائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر کسی مادی وسیلہ وذریعہ کے منکشف ہوگئی ۔
" وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر " اور ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ اس نے وہ خط اپنی کمر سے نکال کر دیا تھا پس اس دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ اس کی چوٹی خاص دراز ہوگی جو کمر تک پہنچتی ہوگی اور اس خط کو اس نے چوٹی کے نچلے حصہ میں باندھ کر کمر میں اڑس رکھا ہوگا " بعض اہم اقدامات اور منصوبوں کے بارے میں " وہ اقدامات اور منصوبے فتح مکہ کے لئے لشکر کشی سے متعلق جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی مصالح کے تحت پوشیدہ رکھا تھا ۔ اس قصہ کی اصل یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے قصد سے مسلمانوں کو سفر اور لڑائی کی تیاری کا حکم دیا تو ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی اس تیاری اور اصل منصوبہ کو پوشیدہ رکھنے کی تاکید بھی مجاہدین اسلام کو فرمائی تھی ۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصد تو مکہ کا کیا تھا اور روانگی خیبر کے لئے ظاہر فرمائی تھی یہ احتیاط خالص جنگی مصالح کے تحت تھی اور اس وقت کے حالات میں اس جنگی منصوبہ کا پوشیدہ رکھا جانا نہایت ضروری تھا ۔ حاطب بن ابی بلتعہ ایک صحابی تھے، وہ اس منصوبہ کو جانتے تھے ۔ انہوں نے اپنے مفاد کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل منصوبہ کی اطلاع قریش مکہ کو دینی چاہی اور نہایت خفیہ طور پر ایک خط مذکورہ عورت کے ہاتھ مکہ روانہ کردیا ، اس خط میں انہوں نے اہل مکہ کو مطلع کیا تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کے لئے آرہے ہیں ، ہوشیار رہنا ۔ لیکن اس عورت کے روانہ ہوتے ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا کہ ایک عورت ایسا خط لے کر مکہ جاری ہے اور روضہ خاخ تک پہنچ چکی ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ وغیرہ کو اسی وقت روانہ فرمایا اور خط منگوا کر ملاحظہ کیا ، یہاں یہ معلوم ہوا کہ جاسوسوں کی پردہ دری اور ان کے خطوط پڑھنا جائز ہے ، اسی طرح کسی بھی مفسد کی پردہ دری جائز ہے جب کہ مصلحت اس کی متقاضی ہو یا پردہ پوشی کسی مفسدہ کو جنم دینے کا باعث بنتی ہو۔
" ان کے لئے کوئی ایسا کارنامہ انجام دوں الخ " اپنے آخر تک یہ جملہ اس عبارت کا تر جمہ ہے : ان اتخذفیہم یدا یحمون بہا قرابتی اور طیبی نے لکھا ہے کہ " یحموں " صفت ہے " یداً کی اور ید (ہاتھ ) سے مراد یا تو انعام عطا کرنے والا ہاتھ ہے یا مدد پہنچانے والی طاقت وقدرت ، اس طرح اس عبارت کا لفظی ترجمہ یوں ہوگا : (میں نے چاہا کہ ) ان سے یہ انعام یا ایسی طاقت وقدرت حاصل کروں کہ وہ لوگ میری قرابت یا قرابتداروں کی مدد وحمایت کریں ۔ حاطب کا مطلب یہ تھا کہ اس حرکت بیجا سے میری اصل غرض وغایت اپنے قرابتداروں کا تحفظ حاصل کرنا تھی ۔ میں اتنی مفید معلومات فراہم کر کے قریش مکہ کو خوش کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ میری اس خوشامد کے سبب مکہ میں میرے قرابتداروں کی دیکھ بھال رکھ سکیں ، واضح رہے کہ حاطب نے اہل مکہ کو جو خط بھیجنا چاہا تھا اس سے ان کو مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زک اور ایذاء پہنچانا ہرگز نہیں تھا، اگر ان کا مقصد یہ ہوتا تو پھر ان کے کافر ہوجانے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا ، حقیقت یہی ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ خیال کر کے کہ میرے اس خط لکھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی ، اس حرکت کے ارتکاب کی نادانی کر بیٹھے تھے ۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنا مقصد بیان کیا جو ان کے خط لکھنے کا محرک بنا تھا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی ۔ اگر ان کی نیت اور ان کے مقصد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف یا نقصان پہنچانے کا ارادہ شامل ہوتا تو لسان نبوت ان کے بیان کی تصدیق ہرگز نہ کرتی ۔ ہاں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک بڑے اجتہادی قصور میں مبتلاہوئے بایں طور کہ انہوں نے اپنے اس معاملہ کو چھپایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لئے بغیر ایسا کام کیا ۔
" اس منافق کی گردن اڑادوں " اس عبارت کے تحت ملا علی قاری نے تو یہ لکھا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرکے حاطب کے بیان عذر کی تصدیق فرمائی لیکن اس کے باوجود حضرت عمر نے جو یہ بات کہی تو اس کا محرک دین کے تئیں وہ شدت اور سخت گیری تھی جو حضرت عمر کی ذات کا خاصہ تھا ۔ وہ دین ومذہب کے معاملات میں ذرا بھی نرمی اور رعایت کے قائل نہیں تھے اور پھر حاطب کا معاملہ تو ویسے بھی بڑی سنگین نوعیت کا تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس زمانہ میں بعض لوگ تھے بھی اس طرح کہ ان کی طرف نفاق کی نسبت کی جاتی تھی ، چنانچہ انہوں نے یہی سوچا کہ جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے وہ قتل کا مستوجب ہوگیا لیکن اس سوچ میں چونکہ خود ان کے نزدیک بھی یقین کا پہلو غالب نہیں تھا اس لئے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاطب کے قتل کی اجازت مانگی ۔ رہی یہ بات کہ انہوں نے حاطب پر " منافق " کا اطلاق کس وجہ سے کیا تو ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر نے اس بارہ میں بھی سوچا ہو کہ حاطب نے شائد صحیح بات نہیں بتائی ہے ، ان کے دل میں کچھ اور ہے اور بیان انہوں نے کچھ اور دیا ہے ، ان کا مذکورہ عذر محض بات بنانے کے لئے ہے اور حضرت شیخ عبد الحق لکھتے ہیں : ہوسکتا ہے کہ اس واقعہ کو بیان کرنے میں کچھ تقدیم وتاخیر ہوگئی ہو ۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بعد حضرت عمر کا یہ بات کہنا مستبعد معلوم ہوتا ہے ، گویا حضرت شیخ کے نزدیک اس بات کا قوی احتمال ہے کہ حضرت عمر نے یہ بات پہلے ہی کہی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کا جزء بعد کا ہو ۔
" تم جو چاہو کرو " یہ اہل بدر ہی کو خطاب ہے اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عملی زندگی میں تمہیں پوری طرح آزادی دے دی گئی ہے کہ اچھا برا جو بھی چاہو کرو اور فرائض وارکان دین کی بجاآوری میں بھی ہر تقصیر و کوتاہی تمہارے لئے معاف ہے بلکہ اس ارشاد قدسی کی اصل مراد اہل بدر کے تئیں حق تعالیٰ کے خصوصی کرم اور اس کی خصوصی عنایت کو ظاہر کرنا اور ان کے اس خصوصی مرتبہ کی نشاندہی کرنا ہے کہ غزوہ بدر میں شرکت کے عوض تمہیں آخرت کے تمام بلند مراتب ودرجات حاصل ہوگئے ہیں وہاں کی تمہاری اعلی حیثیت متعین ہوگئی ہے ۔ اب تمہیں اجازت ہے کہ اعمال صالحہ اور افعال نافلہ میں سے چاہے تھوڑا کرو چاہے بہت کرو ، جو بھی کر لوگے کافی ہوجائے گا ۔
" جنت تمہارے لئے واجب ہوگئی ہے " یعنی یہ ثابت ہوگیا کہ تم جنت میں جاؤ گے یا یہ کہ حق تعالیٰ کے وعدے کے بموجب تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے ۔ نیز طیبی نے لکھا ہم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لعل (ممکن ہے ) کا جو لفظ استعمال فرمایا وہ اپنے اعتبار سے نہیں فرمایا بلکہ اس میں ترجی اور امید رکھنے کے معنی حضرت عمر کی طرف راجع ہیں ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تو یہ بات محقق اور یقینی تھی ۔ اور زیادہ قرین یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بدر کی طرف کے جنتی اور مغفور ہونے کے پہلو کو لفظ لعل کے ساتھ اس لئے بیان فرمایا تاکہ اہل بدر اس پر اس طرح اعتماد اور بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں کہ فرائض و واجبات تک سے غفلت اختیار کرلیں اور اعملوا ماشئتم (تم جو چاہو کرو) سے یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ ہر فعل وعمل کی آزادی ہمیں مل گئی ہے ۔ اب جو چاہے کرتے پھریں
میں تم کو بخش چکا ہوں " یعنی ، میں نے تم لوگوں کو اپنی نظر رحمت ومغفرت سے نواز دیا ہے ۔ اہل بدر کے حق میں اس عفو ومغفرت کا تعلق صرف آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے بھی، مطلب یہ کہ ان میں سے اگر کوئی شخص کسی ایسے فعل کامرتکب ہوجائے جس پر حدوغیرہ جاری ہوتی ہے تو وہ مستوجب مواخذہ ہوگا ، چنانچہ ایک صحابی مسطح بن اثاثہ حالانکہ اہل بدر میں سے تھے لیکن جب انہوں نے حضرت عائشہ پر افتراباندھا اور قرآن کریم نے ان کے افترا کا پردہ چاک کرکے عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کی تصدیق کی ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسطح کو مستوجب مواخذہ گرانا اور ان پر حد افترا قائم فرمائی ۔
" یہ آیت نازل فرمائی " اس سے سورت ممتحنہ کی وہ ابتدائی آیتیں مراد ہیں جن کا شان نزول حاطب کا یہی قصہ ہے یہ آیتیں یوں ہے :
(يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَا ءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَا ءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَا ءَ مَرْضَاتِيْ ڰ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ڰ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَا اَخْفَيْتُمْ وَمَا اَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَا ءَ السَّبِيْلِ اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَا ءً وَّيَبْسُطُوْ ا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْ ءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ Ą لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ ڔ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ڔ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ Ǽ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَه اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰ ؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَا ءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَه اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَيْكَ اَنَبْنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ Ć ) 60۔ الممتحنہ : 1 تا4)
" اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو حالانکہ تمہارے پاس جو دین آچکا ہے وہ منکر ہیں ، رسول کو اور تم کو اس بناء پر کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لے آئے شہر بدر کر چکے ہیں ، اگر تم میرے رستہ پر جہاد کرنے کی غرض سے اور میری رضا مندی سے ڈھونڈنے کی غرض سے (اپنے گھروں سے ) نکلے ہو ، تم چپکے چپکے دوستی کی باتیں کرتے ہو حالانکہ مجھ کو سب چیزوں کا خوب علم ہے تم جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو (یاد رکھو ) جو شخص تم میں سے ایسا کرے گا تو راہ راست سے بھٹکے گا اگر ان کو تم پر دسترس ہوجائے تو ( فورًا ) اظہار عداوت کرنے لگیں (بایں طور کہ ) تم پر برائی کے ساتھ دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں، وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ تم کافر ہو جاؤ تمہارے رشتہ دار اور اولاد قیامت کے دن تمہارے کام نہ آویں گے اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کو خوب دیکھتا ہے ، تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام میں اور ان لوگوں میں جو کہ ان کے ساتھ تھے ایک نمونہ ہے ۔ جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو ان سے بیزار ہیں ، ہم تمہارے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور بغض ظاہر ہوگیا جب تک تم واحد پر ایمان نہ لاؤ ، لیکن ابراہیم علیہ السلام کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے (استغفار سے زیادہ ) مجھ کو اللہ سے آگے کسی بات کا اختیار نہیں ۔ اے ہمارے پروردگار !ہم آپ پر توکل کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ "
یہ آیات کریمہ اگرچہ حاطب کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی لیکن خطاب عمومی طور پر ہے تاکہ حاطب جیسے لوگ بھی اس کے تحت آجائیں ، اسی لئے کہا گیا ہے العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب یعنی یہ اصولی قاعدہ ہے کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصوص سبب کا ۔ مطلب یہ کہ کوئی آیت مثلا کسی خاص واقعہ کے سلسلہ میں یا کسی خاص شخص کے متعلق نازل ہوئی تو یہ نہیں کہ وہ آیت بس اسی واقعہ یا اسی شخص کے ساتھ مخصوص سمجھی جائے گی بلکہ اس کا مصداق ومحمول عمومی نوعیت کا ہوگا کہ جو بھی شخص اس آیت کے مفہوم ومضمون سے مطابقت رکھے گا وہ اس آیت کے تحت آئے گا اور یہ سمجھاجائے گا کہ گویا یہ آیت اسی شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں