مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 866

بعض انصار کے شکوہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پر اثر جواب

راوی:

وعن أنس قال : إن ناسا من الأنصار قالوا حين أفاء الله على رسوله صلى الله عليه و سلم من أموال هوازن ما أفاء فطفق يعطي رجالا من قريش المائة من الإبل فقالوا : يغفر الله لرسول الله صلى الله عليه و سلم يعطي قريشا ويدعنا وسيوفنا تقطر من دمائهم فحدث رسول الله صلى الله عليه و سلم بمقالتهم فأرسل إلى الأنصار فجمعهم في قبة من أدم ولم يدع معهم أحدا غيرهم فلما اجتمعوا جاءهم رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " ما كان حديث بلغني عنكم ؟ " فقال فقهاؤهم : أما ذوو رأينا يا رسول الله فلم يقولوا شيئا وأما أناس منا حديثة أسنانهم قالوا : يغفر الله لرسول الله صلى الله عليه و سلم يعطي قريشا ويدع الأنصار وسيوفنا تقطر من دمائهم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني أعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله صلى الله عليه و سلم " . قالوا بلى يا رسول الله قد رضينا . متفق عليه

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کے بعض لوگوں نے اس وقت شکوہ کا اظہار کیا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبیلہ ہوازن کا وہ مال غنیمت عطا کرنا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں کے کئی لوگوں کو سو سو اونٹ دینا شروع کئے چنانچہ انصار میں سے ان بعض لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو تو (اتنا زیادہ ) عطا کر رہے ہیں اور ہم کو زیادہ نہیں دے رہے ہیں ۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب ان لوگوں کا یہ شکوہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام انصار کو بلا بھیجا اور ان کو اپنے اس خیمہ میں جمع کیا جو چمڑے کا بنا ہوا تھا ۔ ان کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں بلایا گیا تھا ۔ (یعنی صرف انصار ہی کو جمع کیا گیا ، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں بلایا گیا تھا ) جب سب انصار جمع ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : وہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھ کو پہنچائی گئی ہے ؟ ان (انصار ) میں جو عقل مند ودانا لوگ تھے وہ بولے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں سے عقلمند اور ذی رائے لوگوں نے کچھ نہیں کہا ہاں ہم میں سے کچھ نوعمر اور نوجوان لوگوں نے (نا سمجھی سے یہ بات ضرور کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو تو (اتنا زیادہ ) عطا کر رہے ہیں اور ہم انصار کو (زیادہ ) نہیں دے رہے ہیں ۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ابھی ابھی (چند ہی روز پہلے ) کافر تھے انہی کو میں (اس مال میں سے ) دے رہا ہوں ( اور اس طرح ) ان کا دل ملاتا ہوں (یعنی ان کو زیادہ دینے کا واحد مقصد تالیف قلوب ہے ۔ تاکہ وہ اسلام پر قائم رہیں ) اس کے علاوہ اور کوئی مقصد یا جذبہ کار فرما نہیں ہے ۔ اور اے انصار ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ (تمہارے علاوہ وہ ) لوگ (کہ جو مولفتہ القلوب ہیں ) مال واسباب لے کر یہاں لوٹیں اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے مکانوں کو واپس جاؤ ۔ انصار (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پر اثر ارشاد سن کر ) بول اٹھے ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم اس پر راضی ہیں ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
" وہ مال غنیمت عطا کیا جو عطا کرنا تھا : " اس جملہ میں کثرت اموال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس موقع پر بنو ہوازن سے جو مال غنیمت حاصل ہوا تھا وہ بہت زیادہ تھا ۔ چنانچہ روایتوں میں اس مال غنیمت کی جو تفصیل آئی ہے اس کے مطابق چھ ہزار قیدی ، چوبیس ہزار اونٹ ، چار ہزار اوقیہ چاندی (ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے ) اور چالیس ہزار سے زاید بکریاں ہاتھ آئی تھیں اور ایک روایت میں تو یہ ہے کہ بکریوں کی تعداد شمار سے باہر تھی۔
" سو سو اونٹ دینا شروع کئے " جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ اونٹ وغیرہ دئیے وہ دراصل مکہ کے لوگ تھے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے اور دائرہ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے ان لوگوں کے اندر ایمان نے ابھی پوری طرح جگہ نہیں پکڑی تھی اور " مولفۃ القلوب " کامصداق تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلوب کے تحت ان کو سو سو اونٹ دینا شروع کئے تھے ۔ تاکہ اسلام کی طرف ان کا میلان اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی مضبوط ہوجائے ۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد ابوسفیان بھی ان لوگوں میں شامل تھے ۔ مہاجرین وانصار میں سے جو باقی مخلص وصادق مسلمان تھے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو سو سے کم اونٹ عطا فرما رہے تھے مال غنیمت کی تقسیم کا یہ واقعہ مقام جعرانہ کا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (٨ھ ) فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین نامی جنگ میں بنوہوزان وغیرہ کو پسپا کر کے ان سے حاصل شدہ تمام مال واسباب جمع کرادیا تھا اور پھر طائف سے واپس آکر اس مال غنیمت کو مجاہدین اسلام کے درمیان تقسیم فرمایا
" ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے " ان لوگوں کا اشارہ ان غزوات اور معرکہ آرائیوں کی طرف تھا جن میں انصار نے پوری پامردی وجانثاری کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش مشرکین قریش کے خلاف نبرد آزمائی کی ۔ اللہ کی راہ میں ان کا خوان بہایا ۔ ان لوگوں نے دراصل اس خیال کے تحت یہ بات کہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قومی تعلق اور قرابت داری کے تقاضہ سے قریش کے لوگوں کو زیادہ عطا کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ رعایت کر رہے ہیں ۔
" اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر " یعنی اگر ان کو مکہ والوں کو زیادہ مال واسباب مل گیا تو کیا ہوا یہ لوگ تو دنیاوی مال ومتاع لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں گے جب کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ذات کو لے کر اپنے گھروں کو واپس جاؤ گے ۔ اب تم خود ہی سوچ لو کہ دنیا وی مال ومتاع تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے یا اس مال ومتاع کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات زیادہ بہتر اور زیادہ قیمتی ہے ۔
" ہم اس پر راضی ہیں" بلاشبہ ان سعید روحوں کو یہی جواب دینا تھا رسول اللہ کی ذات کے مقابلہ پر دنیاوی مال ومتاع کی بڑی سے بڑی تعداد بھی ان کی نظروں میں ہیچ تھی ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے رضینا قسمۃ الجبار فینا لنا علم وللا عداء مال
فان المال یفنی عن قریب وان العلم باق لا یزال

یہ حدیث شیئر کریں