مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 863

کمزوروں اور لاچاروں کی عزت افزائی

راوی:

وعن عائذ بن عمرو أن أبا سفيان أتى على سلمان وصهيب وبلال في نفر فقالوا : ما أخذت سيوف الله من عنق عدو الله مأخذها . فقال أبو بكر : أتقولون هذا لشيخ قريش وسيدهم ؟ فأتى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبره فقال : يا أبا بكر لعلك أغضبتهم لئن كنت أغضبتهم لقد أغضبت ربك " فأتاهم فقال : يا إخوتاه أغضبتكم قالوا : لا يغفر الله لك يا أخي . رواه مسلم

اور حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد ) ابوسفیان (جب مدینہ آئے اور ایک موقع پر ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی ، صہیب رومی ، اور بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے سے گزرے تو ان تینوں نے (ابو سفیان کو دیکھ کر ) کہا : کیا اللہ (کے ان بندوں ) کی تلواروں نے ( کہ جو اللہ کے حکم کی تعمیل میں سر گرم رہتے ہیں ) ادائے حق میں دشمن اللہ کی گردن ابھی نہیں اڑائی ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (نے یہ سنا تو ان تینوں حضرات کو مخاطب کر کے ) بولے ! تم قریش کے اس بڑے آدمی کے بارے میں ایسی بات کہہ رہے ہو جو اپنی قوم کا سردار بھی ہے ۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ساری تفصیل سنکر) فرمایا : ابوبکر ! تم نے شاید ان تینوں کو ناراض کردیا ہے ، اور اگر تم نے ان کو ناراض کیا ہے تو اللہ کی قسم تم نے اپنے پروردگار کو ناراض کردیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( یہ سنتے ہی کانپ اٹھے اور فورا بھاگے ہوئے ) ان تینوں کے پاس آئے اور بولے : اے میرے بھائیو! کیا تم مجھ سے غصہ اور ناراض ہوگئے ہو ؟ ان تینوں نے جواب دیا : اے میرے بھائی اللہ آپ کو معاف کرے ( ہم آپ سے ناراض نہیں ہوئے ہیں ) ۔ " ( مسلم )

تشریح :
مدینہ میں ابوسفیان کی آمد کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور صلح نامہ حدیبیہ کی تجدید کے مشن پر قریش مکہ کے نمائندہ کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے ۔ قریش مکہ دعوت اسلام کی راہ میں جس جارحانہ مزاحمت کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ اہل اسلام کو جس بے دردی کے ساتھ اور جس ظالمانہ طریقہ سے ستاتے اور تکلیف پہنچاتے تھے ۔ اور خود صلح نامہ حدیبیہ کی پامالی اور عہد شکنیوں کے جس طرح مرتکب ہوئے تھے اس بناء پر دین کے ان تینوں پر جوش اور مخلص خادموں یعنی سلمان ، صہیب ، اور بلال کا ابوسفیان کو مدینہ میں دیکھ کر اس تاسف کا اظہار کرنا کہ اتنابڑا مشرک ابھی تک ہمارے ہاتھ سے نہیں مارا گیا ۔ بالکل فطری امر تھا ۔ تاہم ان تینوں کے اس طرح کے جذبات کے برملا اظہار پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس ناگواری کا اظہار فرمایا وہ بھی تدبر اور مصلحت وقت کا تقاضا تھا کیونکہ اول تو ابوسفیان اس وقت ایک سفارتی مشن پر مدینہ آئے ہوئے تھے اور ان کو جان ومال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت حاصل تھی اور اس ضمانت (امان) کا لحاظ کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری تھا ۔ دوسرے دین کی طرف مائل کرنے کے لئے اور مصالح کے تحت ابوسفیان کی دلجوئی کا مقصد بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تھا جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے مواقع پر بعض مشرک سرداروں کے ساتھ خیر سگالی اور دلجوئی کا سلوک فرماتے تھے ۔
" تم نے شائد ان تینوں کو ناراض کردیا ہے " یعنی تم نے ان تینوں کی بات پر جو مخالفانہ رد عمل ظاہر کیا ہے وہ چاہے تدبر اور مصلحت کے تحت تھا لیکن یہ بات نہ بھو لو کہ وہ تینوں دین کے مخلص خادم ہر حالت میں اللہ کے محب اور محبوب ہیں اور انہوں نے ابوسفیان کے تئیں جو کچھ کہا وہ صرف اللہ اور اللہ کے دین کی محبت میں اور ایک دشمن دین وخدا کی نفرت میں کہا، لہٰذا اس جہت سے تم نے ان تینوں کی مخالفت کر کے اگر ان کو ناراض کردیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اللہ کے محبوب بندوں کے مقابلہ پر ایک دشمن دین کے پہلو کی رعایت کرنے کا مرتکب ہوگئے جس کا سبب گویا تم نے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لی ہے۔ لہٰذا تم فورا ان تینوں کے پاس جاؤ ، ان سے معذرت کرو ، اگر وہ ناراض ہوگئے ہیں تو ان کی ناراضگی کو دور کرو ۔
نہیں " اے میرے بھائی" ظاہری اسلوب کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں یا اخانا (اے ہمارے بھائی ) کہا جاتا ، تاہم ہوسکتا ہے کہ یااخی (اے میرے بھائی ) کا لفظ ان تینوں کی طرف سے نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کی طرف سے نقل کیا گیا ہے یعنی ان تینوں میں سے ہر ایک نے الگ الگ یوں کہا کہ " نہیں اے میرے بھائی (میں آپ سے ناراض نہیں ہوں ) واضح ہو کہ مشکوٰۃ کے بہت سے نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے پیش کے ساتھ بصیغہ تصغیر یعنی " اخی " نقل ہوا ہے اور ایک نسخہ میں ہمزہ کے زیر اور ی کے جزم کے ساتھ بھی مذکور ہے ویسے ہمزہ کے زبر کے ساتھ بھی یہ لفظ کوئی قباحت نہیں رکھتا ۔
مذکورۃ الصدر تینوں حضرات یعنی سلمان فارسی صہیب رومی اور بلال حبشی صحابہ کے اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جو " غلامی " کی نسبت سے غیر مسلم سماج میں کمتر و پست سمجھے جاتے تھے اور معاشی و اقتصادی طور پر بھی نہایت غریب اور مفلوک الحال تھے ۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات کی دلداری و دلجوئی کا بڑا لحاظ رکھتے تھے ۔ اور ایسی کوئی بات نہیں ہونے دیتے تھے ۔ جس سے ان مخلصوں کو اپنی کمزوری ولاچاری کا احساس ہوا اور ان کی عزت ونفس کو دھکا لگے جس کی ایک مثال یہی حدیث ہے ۔ چنانچہ اس حدیث سے نہ صرف یہ کہ سماجی ومعاشی طور پر مفلس و کمزور صحابہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا اس طرف توجہ دلائی کہ ان کی تعظیم وتکریم اور ان کی رعایت خاطر کو ہر حالت میں ملحوظ رکھا جائے۔
حضرت صہیب رومی
صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ غلام ہیں ۔ ابویحییٰ کنیت ہے یہ اصل میں دجلہ وفرات کے درمیان " موصل " کے رہنے والے تھے ۔ جب رومی فوجوں نے اس علاقہ پر دھاوا بولا اور لوٹ مار کی تو صہیب بھی ان لوگوں میں تھے جن کو رومی فوج نے قیدی بنا رکھا تھا اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔ اس وقت یہ چھوٹی عمر کے تھے جب بڑے ہوئے تو شکل وشباہت سے بالکل رومی لگنے لگے ۔ بعد میں قبیلہ کلب کے کچھ لوگوں نے ان کو رومیوں سے خرید لیا اور ان کو مکہ لے آئے ۔ پھر عبداللہ بن جدعان نے ان کو خریدا اور آزاد کر دیا ۔ عبداللہ بن جدعان کی موت تک حضرت صہیب اسی کے ساتھ رہے ۔ ایک روایت یہ ہے کہ صہیب جب روم میں رہتے ہوئے بڑے ہوگئے اور عقل وسمجھ آگئی تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور مکہ آگئے ۔ مکہ میں عبداللہ بن جدعان کے پاس پہنچے اور اس کے حلیف بن کر اسی کے ساتھ رہنے لگے ۔ حضرت صہیب قدیم االا سلام ہیں ۔ انہوں نے دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ ہی میں مکہ میں اسلام قبول کرلیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت صہیب ، اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا تھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں مقیم تھے ۔ اور اس وقت تک کچھ اوپر تیس آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ حضرت صہیب بھی ان کمزور ولاچار مسلمانوں میں ہیں جن کو اللہ کی راہ میں سخت ترین آزمائشوں سے گزرنا پڑا ، اور جو قریش مکہ کے بہت زیادہ ظلم وستم کا نشانہ بنے ۔ بعد میں انہوں نے مکہ چھوڑ دیا اور ہجرت کرکے مدینہ آگئے ۔ ٨٠ ھ میں بعمر ٧٠سال مدینہ میں ان کا انتقال ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئے۔ قرآن کی آیت (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْ تِغَا ءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) 2۔ البقرۃ : 207) انہی کی شان میں نازل ہوئی تھی ۔

یہ حدیث شیئر کریں