حضرت سلمان فارسی کی فضیلت
راوی:
وعن أبي هريرة قال : كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه و سلم إذ نزلت سورة الجمعة فلما نزلت [ وآخرين منهم لما يلحقوا بهم ] قالوا : من هؤلاء يا رسول الله ؟ قال : وفينا سلمان الفارسي قال : فوضع النبي صلى الله عليه و سلم يده على سلمان ثم قال : " لو كان الإيمان عند الثريا لناله رجال من هؤلاء " . متفق عليه
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سورت جمعہ نازل ہوئی اور جب یہ آیت آئی : (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 62۔ الجمعہ : 3) (اور ان میں کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جو ابھی ان سے آکر نہیں ملے ہیں ) تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کون لوگ ہیں (جو ابھی آکر نہیں ملے ہیں؟) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ : اس وقت ہمارے درمیان سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کا یہ سوال سن کر ) اپنا ہاتھ سلمان پر رکھا اور فرمایا : اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی ہوتا تو بلاشبہ ان لوگوں میں کتنے ہی اس کو پالیتے اور حاصل کرتے ،" (بخاری ومسلم )
تشریح :
پوری آیت اپنے سیاق کے ساتھ یوں ہے ۔
(هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّ نَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ Ą وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ǽ ) 62۔ الجمعہ : 3-2)
" (اللہ) ہی تو ہے جس نے (عرب کے ) امی لوگوں میں ان ہی (کی قوم ) میں سے (یعنی عرب میں سے ) ایک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم ) جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو (برے عقائد اور بری عادتوں سے ) پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب ودانائی (کی باتیں ) سکھاتے ہیں ۔ اور یہ لوگ (ان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ) پہلے کھلی گمراہی میں تھے اور ان میں سے (کہ جن میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجا ہے ) دوسرے لوگ وہ ہیں جو ابھی ان میں آکر شامل نہیں ہوئے ہیں اور وہ (اللہ ) زبر دست حکمت والا ہے ۔ "
اس آیت میں (امی یعنی ناخواندہ لوگوں ) سے مراد اہل عرب ہیں اور اشارہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف ہے جنہوں نے گمراہی وجہالت کا راستہ چھوڑ کر نبی آخر الزمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ۔ " آخرین " (دوسرے لوگوں ') سے مراد وہ لوگ ہیں جو نزول قرآن کے وقت موجود نہیں تھے بلکہ بعد کے زمانہ میں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وقت اسلام لانے والوں میں شامل ہوئے ، گویا تابعین کی طرف اشارہ ہے اور تابعین بھی خاص طور پر وہ جن کا تعلق غیر عرب یعنی عجم سے ہے ، چنانچہ تابعین کی اکثر تعداد عجمیوں ہی پر مشتمل ہے جیسا کہ چند کو چھوڑ کر باقی سب صحابہ عرب سے ہیں بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں گویا حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کی جو غیر عرب یعنی عجمی ہیں اور ان کی نسبت سے واضح فرمایا کہ آیت میں " آخرین " سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت تو دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہیں یا تو اس وجہ سے کہ وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں اور یا اس وجہ سے کہ ان تک ابھی دعوت اسلام نہیں پہنچی ہے لیکن بعد میں یہ تمہارے پاس آئیں گے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوں گے اور ان میں سے اکثر عجمی ہوں گے ۔ وہ لوگ دین اور علم کے ایسا جویا ہوں گے کہ اگر دین وایمان اور علم کا سرمایہ ثریا کی بلندی پر پہنچ جائے تو وہ اس کو وہاں سے بھی حاصل کریں گے چنانچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان تابعین نے جس جستجو و محنت سے دین و ایمان حاصل کیا اور علم واجتہاد کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ صحابہ کے بعد صرف انہی کا وصف ہے ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا
نام سلمان " اور کنیت " ابوعبداللہ " ہے ان کا وطنی تعلق فارس (ایران ) سے تھا اس لئے " فارسی " کی نسبت سے مشہور ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک یہودی سے خرید کر آزاد کیا تھا حضرت سلمان کا شمار نہایت جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے بیان کیا جاتا ہے کہ یہ فارس کے مشہور نسل رام ہرمزم سے ہیں جو مذہبًا مجوسی تھیں اور ابلق گھوڑوں کی پچاری سمجھی جاتی تھی حضرت سلمان شروع ہی سے دین حق کی جستجو میں لگ گئے تھے اسے سلسلے میں انہوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کرکے عیسائیت کو اختیار کرلیا تھا اور اس کی مذہبی کتابوں کا علم حاصل کیا ان کے والد اور اعزاواقرابا کو ان کا عیسائی بن جانا پسند نہیں آیا ، چنانچہ ان سب نے ان کو سخت سزائیں اور اذیتیں دیں مگر انہوں نے ہر سختی اور ہر اذیت کو برداشت کیا اور عیسائیت کو ترک نہیں کیا ۔ پھر یہ اپنا ملک و وطن چھوڑ کر شام آگئے اور یہاں عرب سے آئے ہوئے بعض لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ، جنہوں نے ان کو مدینہ لا کر ایک یہودی کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکے بعد دیگرے دس آدمیوں کے ہاتھوں بیچے گئے ۔ اور ان سب کی غلامی میں رہے ۔ تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو یہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا : سلمان جنتیوں میں سے ہے اور ان میں سے ایک ہیں جن کو جنت کا اشتیاق وانتظا رہے حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر بہت طویل ہوئی ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ وفات کے وقت ان کی عمر ساڑھے تین سو سال کی تھی ، اور بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈھائی سو سال کی عمر میں وفات پائی ۔ اور زیادہ صحیح یہی قول ہے انہوں نے یہ طویل عمر " دین حق " کی جستجو میں کھپائی یہاں تک کہ آخر میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گوہر مقصود کو پہنچ گئے ۔ حضرت سلمان محنت ومشقت کرکے اپنی روزی کماتے تھے اور اپنی کمائی کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کے راستہ میں خرچ کردینا ان کا معمول تھا ۔ ان کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہت زیادہ مدح وتعریف فرمائی ہے ۔ ٣٥ھ میں بمقام مداین میں ان کا انتقال ہوا ۔