ابو موسیٰ اشعری کی فضیلت
راوی:
وعن أبي موسى أن النبي صلى الله عليه و سلم قال له : " يا أبا موسى لقد أعطيت مزمارا من مزامير آل داود " . متفق عليه
اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے ابوموسیٰ ! تمہیں ایسی خوش آوازی عطا کی گئی ہے جو داؤد علیہ السلام کی خوش آوازی کا ایک حصہ ہے ۔ " (بخاری ومسلم )
تشریح :
مزمار " اصل میں تو ساز یعنی بانسری ، دف اور طنبور وغیرہ کے ساتھ گانے کو کہتے ہیں نہ کہ محض آواز کے ساتھ گانے کو ۔ لیکن یہاں حدیث میں اس لفظ سے خوش آوازی وخوش الحانی " مراد ہے ۔ نیز " آل داؤد" سے مراد خود حضرت داؤد علیہ السلام کی ذات ہے ، اور " آل " کا لفظ زائد ہے کیونکہ خوش آوازی وخوش الحانی کی صفت حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ مشہور ہے نہ کہ آل داؤد کے ساتھ ، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں " آل " کا لفظ شخص واحد کے معنی میں ہے ۔ اور وہ خود حضرت داؤد علیہ السلام کی ذات ہے بہرحال مشہور پیغمبر حضرت داؤد علیہ السلام نہایت خوش آواز اور خوش الحان تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی خوش آوازی اور خوش الحانی کی بڑی صفت عطا فرمائی تھی ، جب وہ اپنی پرسوز اور خوش الحان آواز میں کلام اللہ کی تلاوت کرتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہایت شوق سے ان کی تلاوت سنتے تھے ۔
حضرت ابوموسیٰ
ان کا اصل نام عبداللہ بن قیس اشعری ہے ، ابوموسیٰ کی کنیت سے مشہور ہیں ، انہوں نے مکہ ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا اور حبشہ کوہجرت کرنے والوں میں شامل تھے بعد میں حبشہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے ۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٢٠ھ میں ان کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شروع عہد خلافت تک بصرہ ہی میں مقیم رہے ، پھر معزول ہو کر بصرہ کی سکونت ترک کی اور کوفہ آگئے ۔ جب اہل کوفہ نے سعید بن عاص (حاکم کوفہ ) کو وہاں سے نکال دیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی کہ ابوموسیٰ کو ہمارا حاکم بنا دیجئے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو دوبارہ کوفہ کا حاکم بنا دیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو معزول کردیا اور پھر واقعہ تحکیم کے بعد حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ میں منتقل ہوگئے اور وہیں ٥٢ھ میں فوت ہوئے ۔