عبداللہ بن عمر کی فضیلت
راوی:
عن عبد الله بن عمر قال : رأيت في المنام كأن في يدي سراقة من حرير لا أهوي بها إلى مكان في الجنة إلا طارت بي إليه فقصصتها على حفصة فقصتها حفصة على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " إن أخاك رجل صالح – أو إن عبد الله رجل صالح – " . متفق عليه
" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ریشم کے کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے اور میں ریشمی ٹکڑے کے ذریعہ جنت کے جس محل کی طرف بھی جانا چاہتا ہوں وہ ٹکڑا مجھ کو اڑا کر وہاں تک پہنچا دیتا ہے یعنی مجھ کو ایسا لگا جیسے وہ ٹکڑا میرے لئے پنکھ بن گیا ہے اور میں جنت کے جس بلند درجہ و محل تک جانا چاہتا ہوں اس پنکھ کے ذریعہ اڑ کر پہنچ جاتا ہوں پھر میں نے یہ خواب اپنی بہن ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا اور انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تمہارا بھائی مرد صالح ہے یا یہ الفاظ فرمائے حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ مرد صالح ہے ۔ " (بخاری ومسلم )
تشریح
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعبیر دی کہ وہ ریشمی ٹکڑا دراصل عبداللہ کے نیک اعمال اور اس کی پاکیزہ زندگی کے اوراق ہیں جو ان کو جنت کے بلند مراتب و مدارج تک پہنچائیں گے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے سرفراز ہوئے اس سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی ، چھوٹی ہی عمر میں انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ میں اسلام قبول کر لیا تھا ۔ غزوہ خندق کے بعد کے تمام عزوؤں میں شریک رہے ہیں علم و دانائی زہد ورع اور تقویٰ میں کامل جانے جاتے ہیں ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ۔ مامنا احد الا مالت بہ الدنیا ومال الیہا ما خلا عمر و ابنہ عبداللہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مرتے دم تک جن انسانوں غلاموں کو آزاد کیا ان کی تعداد ایک ہزار بلکہ اس سے بھی متجاوز ہے ۔ ابتاع نبوی اور حب رسول میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا امتیازی مقام ہے ۔
وہ جب بھی حج کو جاتے تو ان مقامات پر کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حج میں ٹھہرا کرتے تھے جیسے عرفات وغیرہ تمام حاجیوں سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے ۔ منقول ہے کہ ایک دن حجاج بن یوسف نے فجر یا عصر کی نماز میں تاخیر کی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ نماز پڑھ لو ، ورنہ سورج تمہارا انتظار نہیں کرے گا حجاج کو ان کا یہ کہنا بہت ناگوار گزرا ، چنانچہ وہ بولا جی چاہتا ہے کہ تمہاری آنکھیں پھوڑ دوں یا یوں کہا کہ جی چاہتا ہے کہ تمہارا سر قلم کر دوں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اگر تم ایسا کر گزرو تو کیا بعید کیونکہ تم تو ایک نادان حاکم کی صورت میں ہم پر مسلط ہو ۔ اور بعض حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات آہستہ سے کہی تھی اور حجاج نے نہیں سنا تھا بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حق گوئی و صاف بیانی کے سبب یا کسی اور وجہ سے حجاج ان سے سخت ناراض ہو گیا اور اس نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا نیزہ قبضہ میں لے کر ان کو نہتا کر دو اور پھر اس نے نہ صرف یہ کہ راستہ میں ان پر پتھراؤ کرایا بلکہ زہر میں بجھے ہوئے حربہ سے ان کے پاؤں کی پشت میں کاری زخم لگوایا ۔ اسی کے سبب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ چند روز سخت بیمار رہ کر انتقال فرما گئے ۔ یہ واقعہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے حادثہ شہادت کے تین ماہ بعد ٧٣ھ میں پیش آیا ۔ اس وقت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ٨٤سال کی تھے ان کا جسد خاکی ذی طوی میں سپرد خاک کیا گیا ۔