حضرت مریم علیہ السلام بنت عمران کا ذکر
راوی:
وعن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم دعا فاطمة عام الفتح فناجاها فبكت ثم حدثها فضحكت فلما توفي رسول الله صلى الله عليه و سلم سألتها عن بكائها وضحكها . قالت : أخبرني رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه يموت فبكيت ثم أخبرني أني سيدة نساء أهل الجنة إلا مريم بنت عمران فضحكت . رواه الترمذي
اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے ساتھ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے قریب بلایا اور ان سے چپکے چپکے کچھ باتیں سن کر رونے لگیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ان سے اسی سرگوشی کے سے انداز میں باتیں کیں تو اب وہ ہنسنے لگیں اور پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا تو ایک روز میں نے ان کے اس دن کے رونے اور پھر ہنسنے کا سبب دریافت کیا انہوں نے بتایا کہ پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کے بارے میں مجھ کو آگاہ کیا تھا جس کو سن کر میں رونے لگی تھیں پھر آپ نے جب مجھ کو بتایا کہ میں مریم بنت عمران کے سوا جنت کی ساری عورتوں کی سردار ہوں تو ہنسنے لگی تھی ، (ترمذی )
تشریح
اسی طرح کی روایت پیچھے گزر چکی ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر ہے کہ انہوں نے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رونے اور ہنسنے کا ماجرا پوچھا تو انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا تھا اور یہاں بھی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا ، تاہم اس حدیث میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اس واقعہ کو فتح مکہ کے سال کا ذکر کرنا بڑا سہو ہے کیونکہ تحقیقی اور تاریخی طور پر اس قصہ کا وقوع فتح مکہ کے سال میں ثابت نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے زمانہ کا ہے یا مرض الموت کے دوران کا دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہ الفاظ کہ آپ نے مجھ کو جب یہ بتایا کہ میں مریم بنت عمران کے سوا جنت کی ساری عورتوں کی سردار ہوں تو ہنسنے لگی مذکورہ سابق روایت کے منافی نہیں ہیں جس میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ بھی کہا تھا کہ میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی ۔
اس روایت کے تحت ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث کو اس باب سے کیا مناسبت ہے اس میں چونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت و فضیلت کا ذکر ہے ، لہٰذا یہ حدیث مناقب اہل بیت کے باب میں نقل کی جانی چاہئے تھی نہ کہ اس باب میں جو ازواج مطہرات کے مناقب کے ساتھ مخصوص ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آتی بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ روایت ضمنا اس روایت سے متعلق ہے جو اس فصل دوم کی پہلی روایت ہے اور جس میں حضرت خدیجہ اور حضرت مریم کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھی ذکر ہے اس کو یوں کہہ لیجئے کہ اس فصل کے شروع میں جو روایت نقل کی گئی اس کے بعض حصہ کے بارے میں چونکہ کچھ مزید باتیں اس حدیث سے معلوم ہوتی تھیں اس لئے اس کو یہاں نقل کر دیا گیا اگرچہ حدیث اصلا اس سے تعلق نہیں رکھتی اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس حدیث کو اس باب میں نقل کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہو جو حضرت مریم علیہ السلام کے بارے نقل ہوئی ہے کہ وہ جنت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہوں گی ۔