حضرت صفیہ کی دلداری
راوی:
وعن أنس قال : بلغ صفية أن حفصة قالت : بنت يهودي فبكت فدخل عليها النبي صلى الله عليه و سلم وهي تبكي فقال : " ما يبكيك ؟ " فقالت : قالت لي حفصة : إني ابنة يهودي فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " إنك ابنة نبي وإن عمك لنبي وإنك لتحت نبي ففيم تفخر عليك ؟ " ثم قال : " اتقي الله يا حفصة " . رواه الترمذي والنسائي
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو یہودی کی بیٹی کہا ہے تو وہ رونے لگیں اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے آئے تو وہ اس وقت بھی رو رہی تھیں ، آپ نے ان سے پوچھا کیوں رو رہی ہو انہوں نے کہا میرے بارے میں حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا ہے کہ میں یہودی کی بیٹی ہوں یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان کے کہنے کا غم نہ کرو حقیقت تو یہ ہے کہ تم پیغمبر کی بیٹی ہو تمہارا چچا بھی پیغمبر تھا اور اب تم ایک پیغمبر کی یعنی میری بیوی ہو پھر آپ نے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو متنبہ کیا کہ اے حفصہ ، تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔ " (ترمذی ، نسائی )
تشریح
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا باپ حیی بن اخطب دراصل حضرت ہارون پیغمبر علیہ السلام کی اولاد سے تھا اور حضرت ہارون حضرت موسی کے بھائی تھے اس اعتبار سے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باپ یعنی جد اعلی پیغمبر ہوئے اور ان کے چچا بھی پیغمبر ہوئے یا یہ بات اپنے جد اکبر یعنی حضرت اسحاق کے اعتبار سے فرمائی کہ گویا حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت اسحاق کی بیٹی کہا اور حضرت اسمٰعیل کو ان کا چچا کہا اور اب تم ایک پیغمبر کی بیوی ہو یعنی حفصہ کو سوچنا چاہئے کہ تمہاری ان سب اعلی و اشرف نسبتوں کے مقابلہ پر خود ان کو اور کون سی اس سے بھی بڑی نسبت حاصل ہے اور ایسی کون سی بڑی فضیلت ان میں ہے کہ وہ تم پر فخر کرتی ہیں ۔ اور نسب و نسل میں تمہیں اپنے سے کمتر سمجھتی ہیں واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مقصد حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دلداری اور اس تنقیص و تحقیر کا ازالہ کرنا تھا جو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ سے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محسوس کی تھی جب کہ وہ صفیہ نہ صرف اپنی ذات کے اعتبار سے ایک سردار خاندان کی معزز خاتون تھیں بلکہ اپنے دینی محاسن اور اوصاف کے اعتبار سے بھی ایک جامع شخصیت تھیں یہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حق میں یہ باتیں دوسری ازواج مطہرات پر ان کو کسی فضیلت و بڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے فرمائی تھیں کیونکہ نسبتوں کا یہ شرف تنہا حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حصہ نہیں تھا ۔ اس شرف میں تو دوسری ازواج مطہرات بھی اس اعتبار سے شریک ہیں کہ وہ بھی تو ایک پیغمبر حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت اسحاق کے بھائی تھے اور وہ سب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں ۔
تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے یعنی صفیہ کی مخالفت یا عداوت کے جذبہ سے تمہیں ایسی باتیں زبان سے نہیں نکالنی چاہئیں جو زمانہ جاہلیت کی یاد گار ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ کسی حالت میں پسند نہیں کرتا ۔