عائشہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب
راوی:
وعن عائشة قالت : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أريتك في المنام ثلاث ليال يجيء بك الملك في سرقة من حرير فقال لي : هذه امرأتك فكشفت عن وجهك الثوب فإذا أنت هي . فقلت : إن يكن هذا من عند الله يمضه " . متفق عليه
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز ) مجھ سے فرمایا کہ تین رات مسلسل تمہیں میرے خواب میں لایا گیا جس کی صورت یہ تھی کہ ایک فرشتہ نہایت شاندار ریشمی کپڑے پر تمہاری تصویر کو میرے سامنے لاتا اور مجھ سے کہتا کہ یہ (تصویر ) تمہاری (ہونے والی ) بیوی کی ہے ، اور جب میں (تصویر کا ) پردہ اٹھا کر تمہارا چہرہ دیکھتا تو ہو بہو تمہارا ہی چہرہ ہوتا تھا پھر میں (فرشتہ کے جواب میں کہہ دیا کرتا تھا اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ خود ہی اس کو پورا کرے گا یعنی اس معاملہ کو تکمیل تک وہی پہنچائے گا اور اس عورت سے میرے نکاح کے اسباب پیدا فرما دے گا ۔
تشریح
ریشمی کپڑے پر تمہاری تصویر کو" ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یوں بیان فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ مجھ (عائشہ ) سے نکاح کریں تو حضرت جبرائیل اپنی ہتھیلی پر میری تصویر (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب میں ) لے کر آئے پس ان دونوں روایتوں میں وجہ تطبیق یہ ہے کہ تصویر کپڑے پر تھی اور وہ ریشمی کپڑا حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ہتھیلی پر تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تصویر دو بار لا کر دکھائی ہو ، ایک بار تو ریشمی کپڑے پر اور ایک بار ہتھیلی پر اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت جبرائیل تو اپنی ہتھیلی پر تصویر لائے تھے اور کوئی دوسرا فرشتہ ریشمی کپڑے پر لے کر آیا تھا ۔ فاذا انت ھی الخ۔ " کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا، اس کا دوسرا ترجمہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ (نکاح و شادی کے بعد ) جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ تو وہی چہرہ ہے جو میں نے خواب میں دیکھا تھا ۔
" اگر یہ خواب اللہ کی طرف ہے " یہاں اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اس خواب کے بارے میں شک کا اظہار کیا معنی رکھتا ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب وحی کی ایک صورت ہے جس کی تحقیق میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں تو اس کا جواب علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر خواب کے اس واقعہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ نبوت پر فائز ہونے سے پہلے کا مانا جائے تو پھر یہ اشکال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ہاں اس صورت میں یہ سوال اٹھے گا کہ فرشتہ کا آنا اس بات کے منافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواب نبوت سے پہلے دیکھا تھا لیکن اگر ذہن میں یہ بات ہو کہ فرشتہ کو دیکھنا خصوصًا خواب میں دیکھنا ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے نبی کے ساتھ جو چیز مخصوص ہے وہ فرشتہ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لانا ہے تو یہ سوال بھی کوئی معنی رکھے گا ۔ اور اگر یہ واقعہ و خواب مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے بعد کا ہے تو کہا جائے گا کہ آپ نے یہ الفاظ اظہار شک کے لئے نہیں بلکہ اس کے وقوع کے یقینی ہونے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے فرمائے تھے دراصل اس طرح کا جملہ استعمال ہی ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کوئی بات متحقق اور ثابت شدہ ہوتی ہے جیسے کوئی حاکم یوں کہے اگر میں حاکم ہوں تو دیکھنا میں کیا کچھ نہیں کروں گا اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس جملہ میں جو شک ہے وہ اصل خواب سے متعلق نہیں ہے بلکہ تعبیر سے متعلق ہے کہ نہ معلوم ظاہر کے مطابق مراد سامنے آئے یا ظاہر کے خلاف کچھ اور یا یہ کہ نہ معلوم " بیوی " سے مراد دنیا کی بیوی ہے یا آخرت کی بیوی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام ڈالا اور ہجرت سے تین سال قبل شوال ١٠نبوی میں مکہ میں ان سے نکاح کیا ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب شوال ٢ھ میں رخصت کرا کر مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں تو اس وقت ان کی عمر ٩ سال تھی بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کے سات مہینے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رخصت کرا کر مدینہ منورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئیں ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ان کو ٩ سال حاصل رہی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی امہات المؤمنین میں یہی وہ طیبہ ہیں جن کا پہلا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ اور کسی باکرہ (کنواری ) سے نکاح نہیں کیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا علم و دانائی اور ذاتی محاسن و کمالات کے اعتبار سے منفرد مقام رکھتی تھیں، زبردست عالمہ فاضلہ فصیحہ اور فقیہہ تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث ان کو یاد تھیں ، بہت زیادہ حدیثیں روایت کرتی ہیں ، شعر و ادب کا بھی اعلی ذوق رکھتی تھیں نامور شعراء عرب کے کلام پر ان کی پوری نظر تھی اور اشعار ادبیات کی ایک بڑی تعداد ان کے حافظہ میں تھی ، ان سے احادیث روایت کرنے والوں کی تعداد صحابہ اور تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت پر مشتمل ہے ١٧رمضان ٥٧ھ یا ٥٨ھ اور ایک روایت کے مطابق ٢٧رمضان ٥٧ھ منگل کی شب میں بعمر ٦٣سال مدینہ منورہ میں وفات ہوئی انہوں نے رات میں دفن کئے جانے کی وصیت کی تھی چنانچہ رات ہی میں جنت البقیع میں ان کو دفن کیا گیا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی ، اس وقت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے مروان مدینہ کا گورنر تھا ۔