اہل بیت اور کشتی نوح میں مماثلت
راوی:
وعن أبي ذر أنه قال وهو آخذ بباب الكعبة : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " ألا إن مثل أهل بيتي فيكم مثل سفينة نوح من ركبها نجا ومن تخلف عنها هلك " . رواه أحمد
اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) انہوں نے کعبہ کے دروازہ کو پکڑ کر یوں بیان کیا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " یاد رکھو ، تمہارے حق میں میرے اہل بیت کی وہی اہمیت ہے جو نوح کی کشتی میں سوار ہو گیا اس نے نجات پالی اور جو شخص اس کشتی میں سوار ہونے سے رہ گیا وہ ہلاک ہوا ۔ " (احمد )
تشر یح
مطلب یہ کہ جس طرح طوفان نوح کے وقت وہی شخص زندہ سلامت بچا اور اس دنیا میں باقی رہا جو نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہو گیا تھا اور جو کشتی میں سوار نہیں ہوا وہ ہلاک ہونے سے بچ نہیں سکا ، طوفان کی بلا خیز موجوں نے اس کا نام و نشان تک مٹا کر رکھ دیا ٹھیک اسی طرح امت محمدیہ کے حق میں اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی پناہ گاہ ہیں کہ جو شخص ان کے دامان عاطفت سے وابستہ ہو گیا ، جس نے ان کے اکرام و احترام اور ان کی محبت و متابعت کو لازم پکڑ لیا اس نے دارین میں نجات پالی ، اور جو شخص ان کے دامن محبت و متابعت سے وابستہ نہیں ہو سکا وہ دونوں جہاں میں ہلاک ہونے سے بچ نہیں سکتا خواہ وہ کتنا مال لٹا دے ، کیسی ہی عزت و جاہ کا سہارہ لے لے ، کتنی بڑی طاقت سے اپنے آپ کو وابستہ کر لے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا دنیا اور دنیا کی چیزوں یعنی یہاں کی فریب کاریوں ، کفر و شرک کی گمراہوں ، بدعات و جہالت کے اندھیروں اور فاسد و بیہودہ خواہشات و آرزؤں کو ایسے گہرے اور بھپرے ہوئے سمندر سے مشابہت دی جس کی سطح پر تہ در تہ موجوں کی بلا خیزی ہو اس کے اوپر فضا میں گھنے اور کالے بادلوں کا جماؤ ہو ، چاروں طرف تاریکی ہو اور سمندر نے ساری آبادیوں اور زمینوں کو گھیر رکھا ہو، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ کیا کہ اس سمندر کی بلا خیزی اور ہلاکت آمیزی سے وہی شخص زندہ سلامت بچ سکتا ہے ، نجات پا سکتا ہے جو میرے اہل بیت کی محبت کی کشتی میں سوار ہو جائے اس معنوی سیاق میں دیکھا جائے تو اس حدیث کہ جس میں فرمایا گیا ہے اصحابی مثل النجوم من اقتدی بشیء منہ اہتدی (او کما قال ) اور اس کے ارشاد گرامی کہ : میرے اہل بیت نوح کشتی کی مانند ہیں " کے درمیان گہرا اور لطیف ربط خود بخود سمجھ میں آ جاتا ہے اور اسی ربط کو سامنے رکھ کر امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ " ہم اہل سنت و جماعت الحمد اللہ اہل بیت کی محبت کی کشتی میں سوار ہوئے اور راہ ہدایت کے ستاروں یعنی اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ راہ یاب ہوئے چنانچہ ہم قیامت کی ہولنا کیوں ، تاریکیوں اور دوزخ کی ہلاکت خیزیوں سے نجات کی ، اور درجات نجات اور وہاں کی ابدی نعمتوں تک پہنچنے کا راستہ پانے کی امید رکھتے ہیں " اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص اس کشتی میں سرے سے سوار ہی نہیں ہوا جیسے خوارج تو وہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اول دہلہ ہی میں ہلاک ہو گیا اور جو شخص اس کشتی میں سوار تو ہوا لیکن ہدایت کے ستاروں کے ذریعہ راستہ پانے سے محروم رہا جیسے روافض تو وہ گمراہی اور تاریکیوں میں اس طرح پھنس کر رہ گیا کہ اس کا زندہ سلامت بچ کر نکلنا ناممکن ہے ۔