مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 817

شہید اعظم کے سر مبارک کے ساتھ ابن زیاد کا تمسخر و استہزا ء

راوی:

وعن أنس قال : أتي عبيد الله بن زياد برأس الحسين فجعل في طست فجعل ينكت وقال في حسنه شيئا قال أنس : فقلت : والله إنه كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه و سلم وكان مخضوبا بالوسمة . رواه البخاري وفي رواية الترمذي قال : كنت عند ابن زياد فجيء برأس الحسين فجعل يضرب بقضيب في أنفه ويقول : ما رأيت مثل هذا حسنا . فقلت : أما إنه كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه و سلم . وقال : هذا حديث صحيح حسن غريب

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک ( تن پاک سے جدا کر کے ) عبیداللہ بن زیاد کے سامنے لا کر ایک طشت میں رکھا گیا تو وہ بدبخت اپنی چھڑی سے اس سر مبارک کو چھڑنے لگا (یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے تئیں اپنی نفرت و حقارت ظاہر کرنے کے لئے چھڑی کا سرا بار بار ناک وغیرہ پر مارتا رہا ) پھر اس نے ان کے حسن کے بارے میں کچھ کہا حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اس شقی کی یہ حرکت دیکھ کر اور اس کے الفاظ کو سن کر ) کہا ، اللہ کی قسم یہ مقدس انسان ہے جو اہل بیت میں سے سب سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھا اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک وسمہ سے رنگا ہوا تھا (بخاری ) اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اس وقت میں ابن زیاد کے پاس موجود تھا میں نے کہا تجھے معلوم بھی ہے ، یہ وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھا ۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح حسن غریب ہے ۔ "

تشریح
اور طبرانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یوں نقل کئے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اپنی چھڑی سے جو اس کے ہاتھ میں تھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آنکھ اور ناک کو کوچنے لگا تو میں نے کہا (ارے بدبخت ) اپنی چھڑی ہٹا لے ، جن جگہوں کو تو اپنی چھڑی سے کوچ رہا ہے ، وہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ رکھا ہوا دیکھا ہے اور براز کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یوں ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن زیاد کو مخاطب کر کے کہا ، جہاں تو اپنی چھڑی سے کوچ رہا ہے وہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونگھتے دیکھا ہے ، میرے یہ کہنے پر ابن زیاد نے اپنی چھڑی ہٹا لی ۔
بہرحال عبیداللہ بن زیادہ وہ شخص ہے جو کوفہ میں یزید بن معاویہ کا گورنر تھا اور یزید نے اسی کو اس لشکر کا کماندار بنایا تھا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے متعین ہوا تھا ، اس شخص نے جس بے دردی سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء و اعزاء کو قتل کرایا اور پھر بعد میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کے ساتھ جس تمسخر و استہزا بلکہ حقارت و تنفر کا سلوک کیا وہ اس کی شقاوت قلبی کا ثبوت ہے چنانچہ خود اس کو قدرت کے انتقام کا اس طرح شکار ہونا پڑا کہ ٦٦ھ میں مختیار بن عبید کے زمانہ میں بمقام موصل ابراہیم بن مالک ابن الاشتر النخعی کے ہاتھوں اپنے بہت سارے لوگوں کے ساتھ موت کے گھاٹ اترا ، اور ذخائر میں عمارۃ بن عمیر کی روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا جب میدان جنگ سے ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سرتن سے جدا کر کے شہر کی جامع مسجد میں لائے گئے تو اس وقت مسجد کے چبوترہ پر میں بھی موجود تھا ، ابن زیاد کا کٹا ہوا سر وہأں رکھا ہوا تھا ، اچانک لوگوں نے ایک طرف کو دیکھ کر چلانا شروع کیا وہ آیا وہ آیا ، میں نے جو دیکھا تو ایک سانپ تیزی سے ابن زیاد کے سر کی طرف چلا آ رہا تھا اور آنا فانا اس کے نتھنے میں گھس گیا ، کچھ دیر وہ اندر رہا پھر وہ باہر نکل کر چلا گیا ۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ آیا وہ آیا کا شور پھر بلند ہوا اور وہ سانپ تیزی سے آ کر ابن زیاد کے نتھنے میں گھس گیا اور کچھ دیر رہ کر پھر نکلا اور چلا گیا ، یہ عجیب و غریب ماجرا دو یا تین بار پیش آیا ۔
" پھر اس نے اس کے حسن کے بارے میں کچھ کہا " اس جملہ کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ابن زیاد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک دیکھ کر ان کے حسن اور ان کی خوبصورتی کے بارے میں کوئی عیب جو نہ بات کہی ، لیکن ایک مطلب جو ترمذی کی روایت سے ظاہر بھی ہوتا ہے یہ ہو سکتا ہے کہ ابن زیاد نے اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حسن و جمال کے بارے میں تعریف و تحسین کے اس طرح مبالغہ آمیز الفاظ استعمال کئے جسے کوئی مذاق اڑانے والا کیا کرتا ہے وہ الفاظ ظاہر تو تعریف کے تھے مگر حقیقت میں اس خوشی کے اظہار کے لئے جو اس بد بخت کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل سے حاصل ہوئی تھی تمسخر و استہزاء کے طور پر تھے ۔

یہ حدیث شیئر کریں