اسامہ کے تئیں شفقت ومحبت کا اظہار
راوی:
وعن أسامة بن زيد قال : لما ثقل رسول الله صلى الله عليه و سلم هبطت وهبط الناس المدينة فدخلت على رسول الله صلى الله عليه و سلم وقد أصمت فلم يتكلم فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم يضع علي يديه ويرفعهما فأعرف أنه يدعو لي . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان دنوں جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مرض وفات میں ) بہت زیادہ کمزور اور نحیف ہو چکے تھے ، میں اور دوسرے لوگ مدینہ میں اترے ، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خاموشی طاری تھی (یعنی شدت مرض و ضعف کے سبب طاقت گویائی بھی باقی نہیں رہ گئی تھی ) چنانچہ (مجھ کو دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبان سے کچھ نہیں بولے تاہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرور کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر مجھ پر رکھتے اور پھر اٹھاتے (نور ولایت اور ظہور فراست کے سبب ) میں سمجھ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں دعا فرما رہے ہیں ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ "
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں مہاجرین و انصار کا ایک لشکر تیار کیا تھا جو محاذ جنگ کو روانہ ہونے کے لئے مدینہ سے باہر پڑاؤ ڈالے ہوئے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض وفات کی خبر سن کر یہ لشکر مدینہ میں واپس آ گیا تھا ، اسی موقعہ کا ذکر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے ۔
مدینہ میں آنے کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے جو " ہبوط " سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی " اوپر سے نیچے اترنے " کے ہیں تو وہ اس مناسبت سے ہے کہ لشکر نے جس جگہ پڑاؤ ڈال رکھا تھا وہ نواح مدینہ کے بالائی حصہ میں واقع تھی جس کو جوف کہا جاتا تھا جیسا کہ میدان عرفات مکہ کے بالائی نواح میں واقع ہے اہل عرب کا یہ اسلوب ہے کہ وہ ایسے مواقع پر گفتگو و کلام میں بلندی و نشیب کی لفظی رعایت رکھتے ، چنانچہ اگر ان کو یہ کہنا ہو کہ " ہم عرفات گئے (تو یوں کہیں گے ہبطنا الی مکۃ یعنی ہم مکہ سے عرفات کو چڑھے اسی طرح مدینہ سے جوف کو جانا " صعود" (چڑھنے ) سے تعبیر کیا جاتا تھا اور جوف سے مدینہ میں آنے کو " ہبوط " سے تعبیر کرتے تھے اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد حرام کے اندر سے باب السلام کی طرف جاتا ہے جو عرفات کی سمت میں ہے تو یوں کہتا ہے ۔ صعدنا الی باب السلام ۔
ملا علی قاری نے ہبطت وہبط الناس المدینۃ کا ترجمہ یہ بیان کیا ہے کہ میں اپنے مکان سے (جو نواح شہر کے بالائی حصہ میں تھا ) مدینہ میں اترا اور دوسرے لوگ بھی اپنے مکانوں سے مدینہ میں اترے ۔
" میرے حق میں دعا فرما رہے ہیں " یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اسامہ رضی اللہ عنہ کی جو محبت اور ان کی خدمت اطاعت کی جو قدر تھی اس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی ۔ اس سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال کرم و عنایت اور شفقت و مہربانی کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے سخت و نازک وقت میں بھی ان کو اپنی دعاؤں سے نوازا ۔