مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 809

فاطمہ اور حسنین کی فضیلت

راوی:

وعن حذيفة قال : قلت لأمي : دعيني آتي النبي صلى الله عليه و سلم فأصلي معه المغرب وأسأله أن يستغفر لي ولك فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فصليت معه المغرب فصلى حتى صلى العشاء ثم انفتل فتبعته فسمع صوتي فقال : " من هذا ؟ حذيفة ؟ " قلت : نعم . قال : " ما حاجتك ؟ غفر الله لك ولأمك إن هذا ملك لم ينزل الأرض قط قبل هذه الليلة استأذن ربه أن يسلم علي ويبشرني بأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة وأن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة " رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب

اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک روز ) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں آج مغرب کی نماز جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھوں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کروں کہ وہ میرے اور آپ کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا فرمائیں چنانچہ (میری والدہ نے مجھے اجازت دے دی اور ) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ) نوافل پڑھتے رہے یہاں تک کہ پھر عشاء کی نماز پڑھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آواز (یعنی میرے قدموں یا جوتوں کی آواز) سن لی (یا یہ کہ میں نے کسی سے کوئی بات کی جس کی آواز آپ نے بھی سن لی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے (جو اس وقت اپنے گھر جانے کے بجائے میرے پیچھے پیچھے آ رہے ہو ) اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو عفو و بخشش سے نوازے (دیکھو) یہ ایک فرشتہ ہے جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، اس (فرشتہ ) نے اپنے پروردگار سے اس بات کی اجازت لی ہے کہ (زمین پر ) آ کر مجھ کو سلام کرے اور مجھ کو یہ خوشخبری سنائے کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ "

تشریح
مجھے اجازت دیجئے شاید حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مکان مسجد نبوی سے خاصے فاصلہ پر رہا ہوگا اور ان کی والدہ یا تو خود اپنی تنہائی کی وجہ سے یہ حذیفہ کے تئیں احتیاط کے پیش نظر ان کو اس وقت اتنی دور جانے سے منع کر رہی ہوگی ۔
" یہاں تک کہ پھر عشاء کی نماز پڑھی " اس سے مغرب و عشاء کے درمیان نوافل میں مشغول رہنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جس کو مشائخ کے ہاں " احیاء ما بین العشائین " کہا جاتا ہے ۔
" پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا " اس میں اس مقصد کی اہمیت و عظمت کی طرف اشارہ ہے جس کے لئے وہ فرشتہ زمین پر اترا تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں