مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 806

حسنین سے کمال محبت کا اظہار

راوی:

وعن بريدة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يخطبنا إذ جاء الحسن والحسين عليهما قميصان أحمران يمشيان ويعثران فنزل رسول الله صلى الله عليه و سلم من المنبر فحملهما ووضعهما بين يديه ثم قال : " صدق الله [ إنما أموالكم وأولادكم فتنة ] نظرت إلى هذين الصبيين يمشيان ويعثران فلم أصبر حتى قطعت حديثي ورفعتهما " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي

اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین آ گئے وہ دونوں سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے اور (کم سنی ناطاقتی کے سبب ) اس طرح چل کر آ رہے تھے کہ گر گر پڑتے تھے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کو دیکھ کر منبر سے اتر آئے اور ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور پھر ان کو اپنے پاس بٹھا کر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے کہ آیت (انما اموالکم واولادکم فتنۃ) میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا (کہ ان سے چلا نہیں جا رہا ہے اور ) گرتے پڑتے چلے آ رہے ہیں تو (ان کی محبت میں ) مجھ کو صبر نہ ہو سکا اور میں نے اپنی بات دینی وعظ و نصیحت اور بیان احکام و مسائل کا سلسلہ منقطع کیا اور منبر سے اتر کر ) ان کو گود میں اٹھا لیا ۔ " (ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی )

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ کے درمیان منبر سے اتر کر حسنین کو اٹھانا دراصل ایک ایسا عمل تھا جس کا تحرک شفقت و ترحم اور رقت و محبت کا وہ جذبہ تھا جو ان شاہزادوں کو اس حال میں دیکھ کر قلب نبوت میں امنڈ آیا تھا چونکہ اولاد اور بچوں پر شفقت و مہربانی کرنا ایک مستحسن و مستحب اور پسندیدہ حق چیز ہے اور خطبہ کے دوران خطیب کا کچھ لمحات کے لئے کسی نیک عمل کی طرف متوجہ ہو جانا جائز ہے اس خطبہ کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو تداخل فی العبادات کی ایک قسم کہا جائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عمل کو جو عذر بیان فرمایا وہ ایک تو کسر نفسی کے تحت تھا ۔ دوسرے سامعین و حاضرین کو متنبہ کرنا بھی مقصود تھا کہ میرے اس عمل کو مستقل میں دلیل بنا کر خود کو عادی نہ بنا لیں اور یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ جب میں نے ایسا کیا ہے تو ہر شخص جب چاہے ایسا کر سکتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں