قیامت کا وقت کسی کو معلوم نہیں
راوی:
وعن جابر قا ل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول قبل أن يموت بشهر تسألوني عن الساعة ؟ وإنما علمها عند الله وأقسم بالله ما على الأرض من نفس منفوسة يأتي عليها مائة سنة وهي حية يومئذ . رواه مسلم
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے ایک مہینہ پہلے یہ فرماتے ہوئی سنا کہ تم لوگ مجھ سے قیامت کا وقت پوچھا کرتے ہو ( کہ پہلا صور کب پھونکا جائے گا اور دوسرا کب ) تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا متعین وقت صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جس پر سو سال کا عرصہ گزرے اور وہ اس کے بعد بھی زندہ رہے ۔ " ( مسلم )
تشریح :
اس کا متعینہ وقت صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے " کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا کہ تم لوگ قیامت کبری کے آنے کا وقت مجھ سے کیا پوچھتے ہو ، مجھے تو خود اس کا متعینہ وقت معلوم نہیں ہے کسی کو بھی اس سے باخبر نہیں کیا ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ وہ قیامت کب آئے گی ہاں قیامت صغری اور وسطی کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ تمہیں بتائے دیتا ہوں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے بارے میں آگاہ فرمایا ۔
" اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص موجود نہیں ہے الخ " کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت وسطی " کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس وقت میرے زمانہ میں جو لوگ موجود ہیں اور نسل ہمارے سامنے ہے اس کا خاتمہ سو برس کی مدت میں ہو جائے گا اس مدت کے بعد ان میں سے کوئی زندہ نہیں بچے گا اس نسل کے خاتمہ کے ساتھ گویا ایک عہد ختم ہو جائے گا اور ایک نئے عہد ( قرآن ) کی ابتداء ہوگی جو آنے والی نسل کا عہد ہوگا ۔ پس پرانی نسل اور پرانے عہد کے خاتمہ اور اس کے بعد نئی نسل اور نئے عہد کی ابتداء کا نام قیامت وسطی ہے اور اسی طرح ہر انسان کی موت اس کے اعتبار سے " قیامت صغری " ہے !واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کی نسل کے خاتمہ کے ذریعہ طبقہ صحابہ کی مدت حیات کی طرف اشارہ فرمایا کہ میرے صحابہ ۔ جیسے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلمان وغیرہ سو برس سے بھی زائد تک حیات رہے ! اور اگر یہ کہا جائے ، جو زیادہ صحیح بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سو سال کی مدت کا ذکر فرمایا اس کی ابتداء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کے وقت سے مانی جانی چاہیے ) جیسا کہ آگے آنے والی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے تو اس اعتبار سے " اکثر وغالب کی قید کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہے گی چنانچہ بعض حضرات نے اپنی یہ تحقیق بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے وقت جتنے صحابہ حیات تھے یا اس زمانہ میں جو دوسرے اولیاء اللہ پیدا ہوئے وہ سب اس وقت سے ١٠٠ سال پورے ہونے سے پہلے وفات پا گئے تھے ۔
حضرت خضر علیہ السلام اس دنیا میں زندہ ہیں یا نہیں :
بعض اکابر علماء نے اس حدیث سے حضرت خضر علیہ السلام کی موت پر استدلال کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس ارشاد گرامی کے وقت روئے زمین پر جو لوگ موجود اور حیات تھے ان میں حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے لہذا مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق یہ ضروری ہے کہ وہ دو سو سال کی اس مدت کے بعد اس دنیا میں زندہ نہ رہے ہوں اور وفات پاگئے ہوں ۔ لیکن دوسرے علماء اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کا معاملہ بالکل خصوصی نوعیت کا ہے اور ان کی ذات مذکورہ اور ارشاد گرامی کے دائرہ سے باہر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی امت کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ میری امت کے وہ لوگ جو اس وقت موجود وحیات ہیں ١٠٠ سو سال کے اندر وفات پاجائیں گے اور ظاہر ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا تعلق اس امت سے نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی نبی کسی دوسرے نبی کی امت میں سے نہیں ہوتا بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں " علی الارض " ( روئے زمین پر ) کی قید نے حضرت الیاس علیہ السلام کو مذکورہ مفہوم کے دائرے سے باہر کر دیا تھا کیونکہ یہ دونوں اس وقت روئے زمین پر نہیں تھے بلکہ پانی پر تھے ۔
امام بغوی نے تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں سے چار حضرات زندہ ہیں اور ان میں سے دو یعنی حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام تو روئے زمین پر ہیں اور دو یعنی حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہیں ! یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مشائخ سے تواتر کے ساتھ بعض ایسے واقعات منقول ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اگرچہ بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ " خضر " دراصل ایک منصب ہے جس پر ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی ہستی فائز رہتی ہے اور اس کے فرائض میں مخلوق اللہ کو مدد و فائدہ پہنچاتا ہے لیکن اولیاء کاملین کے منقولات وحالات سے انہی خضر علیہ السلام کا زندہ موجود ہونا ثابت ہوتا ہے جو بنی اسرائیل میں سے ایک نبی اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی ومصاحب تھے ۔