ابن عباس رضی اللہ عنہ کی فضیلت
راوی:
وعنہ أنه رأى جبريل مرتين ودعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم مرتين . رواه الترمذي
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں دو بار حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دو مرتبہ دعا فرمائی ۔" (ترمذی )
تشریح
دو بار حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا " اس سلسلہ کی تفصیلی روایت سیوطی نے جمع الجوامع میں اس طرح نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : ایک دن میں بہت سفید کپڑے پہنے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دحیہ کلبی سے سرگوشی کر رہے ہیں ۔ جب کہ حقیقت میں وہ دحیہ کلبی نہیں تھے بلکہ ان کی صورت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ، لیکن اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ جبرائیل ہیں میں وہاں سے گزرتا چلا گیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بولے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اگر ہمیں سلام کرتا تو میں اس کے سلام کا جواب دیتا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ تو بہت سفید کپڑوں میں ہے مگر اس کے بعد اس کی اولاد سیاہ کپڑے پہننے پر مجبور ہوگی ۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آسمان پر چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے لوٹ کر آئے اور مجھ سے فرمایا : ہمارے پاس سے گزرتے وقت تم نے ہمیں سلام کیوں نہیں کیا تھا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اس وقت دحیہ کلبی سے بات چیت اور سرگوشی میں مصروف تھے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ آپ میرے سلام کا جواب دیں اور اس طرح میں آپ کے سلسلہ گفتگو میں رکاوٹ بنوں تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ وہ دحیہ کلبی نہیں تھے۔ ابن عباس نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ واقعہ دو مرتبہ پیش آیا ۔
حضرت عبد الحق محدث دہلوی اس موقع پر لکھتے ہیں : یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام کی آمد عام طور دحیہ کلبی کی شکل و صورت میں ہوتی تھی اور دوسرے صحابہ بھی ان کو دیکھا کرتے تھے ۔ تو پھر خاص طور پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ کس وجہ سے بیان کی گئی کہ انہوں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دو بار دیکھا پھر اس کا جواب حضرت شیخ نے یہ لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان دونوں مرتبہ دحیہ کلبی ہی کی شکل میں دیکھا تھا لیکن ان کا دیکھنا عالم ملکوت میں تھا جبکہ ان کے علاوہ کسی صحابی نے حضرت جبرائیل علیہ السلام عالم ملکوت میں نہیں دیکھا ۔ دوسرے صحابہ ان کو عالم تاسوت میں دیکھا کرتے تھے ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ نبی و رسول کے علاوہ جس انسان نے بھی جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا اس کی بینائی جاتی رہی ، لہٰذا اے ابن عباس رضی اللہ عنہ تمہارے بینائی بھی چلی جائے گی ۔ لیکن موت کے دن تمہاری بینائی پھر تمہارے پاس آ جائے گی ۔چنانچہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تھے اور یہ منقول ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی اور ان کا جسد خاکی کفن میں لپیٹ دیا گیا تو اچانک ایک سفید پرندہ نمودار ہوا اور ان کی میت کے پاس آ کر کفن کے اندر گھسا اور غائب ہو گیا ۔ لوگوں نے ہر چند تلاش کیا اور ادھر ادھر دیکھا لیکن اس سفید پرندہ کا سراغ نہیں لگا ۔ بالاخر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت عکرمہ نے کہا کہ کیا تم لوگ احمق ہو گئے ہو) وہ واقعۃ ً پرندہ نہیں تھا بلکہ ان کی بینائی تھی جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ موت کے دن ان کے پاس واپس آ جائے گی روایت میں بھی آیا ہے کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو لحد میں رکھ دیا گیا تو غائب کی طرف سے ایک آواز آئی جس کو سب نے سنا آیت (یایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ) (اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے )
اور ان کے حق میں دو مرتبہ دعا فرمائی ایک بار تو وہ دعا فرمائی جس کا ذکر پیچھے الفصل الاول کی ایک حدیث میں گزرا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے (صفحہ نمبر ٧٢٥۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) یہ دعا دی اللہم علمہ الحکمۃ (اے اللہ اس کو حکمت عطا فرما ) یا یوں فرمایا تھا
اللہم علمہ الکتاب (اے اللہ اس کو کتاب اللہ کا علم عطا فرما ) دوسری مرتبہ کی دعا وہ ہے جس کے بارے میں بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پیچھے گزر چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم استنجاء کے لئے تشریف لے گئے تو میں نے وضو کے لئے پانی بھر کر رکھ دیا جب آپ کو بتایا گیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رکھا ہے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا دی اللہم فقہ فی الدین (خداوندا! ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دین کا فقیہ بنا دے ) تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ ایک مرتبہ کی دعا توہ مراد ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی رکھنے پر خوش ہو کر دی تھی اور دوسری مرتبہ کی دعا سے وہ دعا مراد ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے حق میں فرمائی تھی ۔