اسامہ بن زید کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امیر لشکر بنانا
راوی:
وعن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم بعث بعثا وأمر عليهم أسامة بن زيد فطعن بعض الناس في إمارته فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن كنتم تطعنون في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة أبيه من قبل وأيم الله إن كان لخليقا للإمارة وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده " متفق عليه
وفي رواية لمسلم نحوه وفي آخره : " أوصيكم به فإنه من صالحيكم "
" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج روانہ کی اور اس پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر بھیجا تو کچھ لوگوں نے اس کی امارت پر طعنہ زنی کی پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم لوگ اس (اسامہ ) کی امارت پر معترض ہوئے ہو تو اس سے پہلے تم اس کے باپ (زید ) کی امارت پر بھی طعنہ زنی (اور اعتراض ) کر چکے ہو اور اللہ کی قسم وہ (زید ) امارت کے قابل بھی تھا اور تمام لوگوں سے مجھے محبوب و عزیز تر بھی تھا اور اس کے بعد یہ (اسامہ ) بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب وعزیز تر ہے بخاری ومسلم اور مسلم کی ایک روایت میں اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں اتنا اضافہ بھی کہ " لوگوں میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ یقینا یہ تمہارے نیک لوگوں میں سے ہے ۔
تشریح
طعنہ دینے اور اعتراض کرنے والے لوگ یا تو منافق تھے جن کا شیوہ ہی یہ تھا کہ وہ کوئی موقع ہاتھ آنے کی انتظار میں رہتے تھے اور جہاں انہیں کوئی موقع ملا زبان کو بے لگام کر دیا اور یا پھر طعنہ دینے والے نو مسلم تھے جو زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں کے عادی چلے آئے تھے اور ان کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت صلاحیت و علمی و عملی قابلیت کی بجائے خاندانی وجاہت اور اہل و دولت کی بنیاد پر تسلیم کی جاتی تھی ۔
اسامہ کے باپ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نہایت جلیل القدر صحابی اور سابق الایمان بزرگ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بے حد محبت تھی اور ذاتی طور پر بھی وہ نہایت قابل شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کی عسکری صلاحیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی فوج روانہ کی جس میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر ہی بنا کر روانہ کیا ۔
٨ھ میں شام کی سرحد پر رومی افواج جمع ہو چکی تھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج اس طرف روانہ کی اور اس پر حضرت زید رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر روانہ فرمایا ۔ یہ شام گئے نصرانی کفار سے مقابلہ ہوا حضرت زید رضی اللہ عنہ ، حضرت جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہوئے اس جنگ کو جنگ موتہ کہا جاتا ہے ۔ اس موقع پر لوگوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی امارت پر اعتراض کیا تھا اگلے سال آپ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ شہید کے صاحبزادے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر فوج بنا کر سرحد پر روانہ کیا تو کچھ لوگوں نے پھر اعتراض کیا اور اس بات کو اعتراض کی بنیاد بنایا کہ ایک تو کم سن ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے والدین پر غلامی کی حالت گزر چکی ہے بالخصوص جب منافقین نے یہ دیکھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابی موجود ہیں تو انہیں اور بھی اعتراض کا موقع ہاتھ آ گیا ۔ انہیں کیا معلوم کہ اسلام رنگ و نسل و مال و دولت کے تمام عارضی امتیازات کو مٹا کر شرافت و بزرگی کی بنیاد پر ذاتی قابلیت، علم و عمل اور تقوی و پرہیزگاری و اعلیٰ اخلاق کو قرار دیتا ہے " اللہ کی قسم وہ امارت کے قابل تھے " اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیت تقویٰ و پرہیزگاری سبقت اسلام اور میری اطاعت و محبت کی بنیاد پر یقینا امارت کے اہل اور سیادت کے لائق تھے اور ان کے بعد اسامہ رضی اللہ عنہ بھی اس قابل ہیں کہ انہیں ملکی مہمات اور اہم خدمات پر مامور کیا جائے کہ وہ بھی اپنے باپ کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز اور میرے نزدیک اس عہدہ کے قابل اور زیادہ قابل وثوق ہیں ۔