مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 782

امام حسن کی فضیلت

راوی:

وعن أبي بكرة قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم على المنبر والحسن بن علي إلى جنبه وهو يقبل على الناس مرة وعليه أخرى ويقول : " إن ابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين " . رواه البخاري

اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے ) دیکھا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (دائیں یا بائیں ) پہلو میں تھے کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وعظ و نصیحت میں تخاطب کے لئے ) لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی (پیار و محبت بھری نظروں سے ) حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنے لگتے اور فرماتے کہ " یہ میرا بیٹا سید " ہے امید رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔" (بخاری )

تشریح
سید" کے معنی اس شخص کے ہیں جو نیکی میں فائق ہو اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ " سید" اس شخص کو کہتے ہیں جو غصہ سے مغلوب نہ ہوتا ہو یعنی حلیم الطبع ہو ویسے " سید " کا اطلاق کئی معنوں پر ہوتا ہے مثلا مربی ، مالک ، شریف ، فاضل ، کریم ، حلیم ، اپنی قوم کی ایذاء پر تحمل کرنے والا، رئیس ، سردار اور پیشواء ۔
دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا ، " یہ ارشاد نبوت دراصل ان واقعات و حالت کی سچی پیش گوئی تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ظہور پذیر ہوئے ۔ اس وقت ملت اسلامیہ کا بڑا حصہ واضح طور پر دو طبقوں میں بٹ گیا تھا ایک طبقہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت و امارت کا قائل تھا اور دوسرے طبقہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت و حکمرانی کو تسلیم کیا تھا ، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں خلافت و امارت کے سب سے بڑے حقدار حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہی تھے کیونکہ نہ صرف ذاتی ، نسبی ، اور دینی عظمت و حشمت و بزرگی اور فضیلت و برتری ان کو حاصل تھی ، اور جس کی ایک بڑی دلیل یہی حدیث ہے کہ لسان نبوت نے ان کو " سید " فرمایا بلکہ ملی و سیاسی سطح پر بھی ان کو زبردست حمایت و طاقت حاصل تھی، اور چالیس ہزار جوان مردوں کا لشکر جان کی بازی لگا دینے کا عہد کر کے اور امیر معاویہ سے لڑنے مارنے مرنے کا حلف اٹھائے ہوئے ان کی پست پر تھا ، لیکن اس استحقاق اور طاقت کے باوجود انہوں نے محض اس خوف سے کہ نانا جان کی امت افتراق و انتشار اور باہمی خونریزی کا شکار ہو جائے گی ، حکمرانی اور ملکی و دنیاوی سیادت کو ٹھکرا دیا اور آخرت کی فلاح و کامرانی کو اپنا منتہائے مقصود سمجھا چنانچہ انہوں نے کسی کمزوری کے تحت نہیں ، بلکہ اتحاد امت کے مقصد کے تحت اپنی مرضی اور خوش دلی کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اس زمانہ میں فرمایا کرتے تھے ، اللہ کی قسم ، مجھ کو یہ گوارا نہیں کہ امت محمدیہ میں سے کسی کے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرے ۔ امت کو خونزیزی سے بچانے کے لئے خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے بہت سے ساتھیوں کے لئے ناقابل قبول تھا ، بعض انتہا پسندوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اس حد تک ملامت بنایا کہ ان کی مجلس میں پہنچ کر ان کو یوں مخاطب کرتے اسلام علیک یا عار المؤمنین ۔ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نہایت تحمل و بردباری کے ساتھ ان سے فرماتے العار خیر من النار اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نہایت و بردباری کے ان سے فرماتے العار خیر من النار (عار ، نار سے بہتر ہے )
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی (اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا ) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں ہی فرقے (یعنی امیر معاویہ کے پیرو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پیرو) ملت اسلامیہ کا جزاء اور مسلمان تھے باوجودیکہ ان میں سے ایک فرقہ مصیب تھا اور ایک مخطی ۔ نیز سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو جانا اور ان سے صلح کر لینا اہل سنت و جماعت کے نزدیک اس امر کی دلیل ہے کہ اس صلح کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت و امارت شرعی طور پر قانونی اور جائز تھی یہاں یہ انتباہ ضروری ہے کہ اس زمانہ میں جو کچھ ہوا یعنی صحابہ کے درمیان اختلاف و نزاع کی جو صورت پید اور بعض مواقع پر ان کے درمیان جنگ و جدل کی جو نوبت آئی اور جس کو " مشاجرات صحابہ " سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے بارے میں تمام سلف اور بزرگان دین نے ہمیشہ اپنی زبان بند رکھی صحابہ رضی اللہ عنہم کی مقدس ہستیوں کو ہدف بنانا تو کجا ، ان سے متعلق ان واقعات و حالات کو تنقید و تبصرہ کا موضوع بنانا بھی اسلاف میں عالم اور بزرگ کر گوارہ نہیں تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو ان کے خون سے دور رکھا ہے تو پھر ہم اپنی زبانوں کو ان پر تنقید و تبصرہ اور ان کی نکتہ چینی سے کیوں ملوث کریں ۔ بہر حال سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا فضل و شرف اس بات سے عیاں ہے کہ سرکار دو عالم نے ان کو " سید" فرمایا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے میں مشغول ہوتے تھے کہ حسن رضی اللہ عنہ، جو اس وقت چھوٹے سے تھے ، مسجد میں آ جاتے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن اور پیٹھ پر چڑھ جاتے تھے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے سر اس قدر آہستگی اور احتیاط سے اٹھاتے کہ حسن نیچے اتر جاتے (ایک دن ) بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منے کے ساتھ وہ معاملہ کرتے دیکھتے ہیں جو کسی اور کے ساتھ کرتے نہیں دیکھا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا " یہ منا میری دنیا کا پھول ہے ، بلاشبہ میرا یہ بیٹا " سید " ہے امید رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو فرقوں کے درمیان صلح کرائے گا اور امام احمد نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن رضی اللہ عنہ کی زبان یا ان کے ہونٹ چوسا کرتے تھے اور اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس زبان یا ہونٹ کو عذاب سے ہرگز دو چار نہیں کرے گا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوسا ہو ۔

یہ حدیث شیئر کریں