جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھ کو خفا کیا
راوی:
وعن المسور بن مخرمة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني " وفي رواية : " يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها " . متفق عليه
اور حضرت مسور ابن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھے خفا کیا اور ایک روایت میں یہ لفظ (بھی ) ہیں : جو چیز فاطمہ کو بری معلوم ہوتی ہے وہ مجھ کو بھی بری معلوم ہوتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو دیکھ دیتی ہے وہ مجھ کو بھی دکھ دیتی ہے ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
اس نے مجھ کو خفا کیا " یعنی فاطمہ چونکہ میرے گوشت پوست کا ایک حصہ ہے اور اس اعتبار سے میرے اور اس کے درمیان جو یگانگت اور یک پن ہے اس کی بناء پر فاطمہ کو خفا کرنا ، یا فاطمہ کو دکھ پہنچانا گویا مجھ کو خفا کرنا اور دکھ پہنچانا ہے ۔ پس اس ارشاد گرامی میں دراصل اس طرح کی بلیغ تشبیہ ہے اور اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ بعض علماء کا اس حدیث سے یہ استدلال کرنا ناموزوں ہے کہ جس نے فاطمہ کو برا کہا وہ کافر ہوگیا ، کیونک اس طرح کی احادیث کا اصل محمول کمال اتحاد واختلاط اور نہایت تعلق کا اظہار ہے چنانچہ اسی قبیل سے وہ روایت بھی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کو دکھ دیا اس نے گویا مجھ کو دکھ دیا اور جس نے مجھ کو دکھ دیا اس نے (گویا ) اللہ تعالیٰ کو دکھ پہنچایا وہ روایت کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے انصار کو عزیز ومحبوب رکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو عزیز ومحبوب رکھا اور جس شخص نے انصار سے دشمنی رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھی ۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد گرامی کہ : قریش کو دوست رکھنا ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا کفر ہے نیز عربوں کو دوست رکھنا ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا کفر ہے ، جس شخص نے عربوں کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس شخص نے عربوں سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی ۔
وہ مجھ کو دکھ دیتی ہے " بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ابوجہل کے بھائی حارث بن ہشام نے چاہا تھا کہ ابوجہل کی بیٹی غورا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ خود حضرت علی کی خواہش تھی کہ غوراء سے نکاح کریں بہرحال جب اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب اجازت کا مرحلہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کی اجازت کبھی نہیں دوں گا اور پھر یہ حدیث ارشاد فرمائی ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار نہیں دیتا لیکن یہ ضرور ہے کہ اللہ کی دوست کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ہرگز یکجا نہیں ہوسکتیں ۔ حضرت علی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ سخت تاثرات سنے تو فورا خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اظہار معذرت کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں وہ کام کبھی نہیں کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ ہو۔
واضح ہو کہ حضرت مسور کی یہ حدیث مختلف طرق سے منقول ہے ، چنانچہ ایک روایت میں اس حدیث کو اس طرح نقل کیا گیا ہے : حضرت مسور کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کھڑے ہوئے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہشام ابن مغیرہ کے بیٹے حارث مجھ سے اس بات کی منظوری چاہتے تھے کہ ابوجہل کی بیٹی کا نکاح علی ابن طالب سے کردیں لیکن میں اس بات کو منظور نہیں کرتا اور مکرر کہتا ہے ہوں کہ میں منظور نہیں کروں گا ہاں اگر ابن ابی طالب نے ارادہ ہی کرلیا ہے تو وہ میری بیٹی کو طلاق دیدیں اور ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں ۔فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو خفا کیا اس نے مجھے خفا کیا ۔