مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 769

آیت قرآنی میں مذکور " اہل بیت " کا محمول ومصداق

راوی:

وعن عائشة قالت : خرج النبي صلى الله عليه و سلم غداة وعليه مرط مرحل من شعر أسود فجاء الحسن بن علي فأدخله ثم جاء الحسين فدخل معه ثم جاءت فاطمة فأدخلها ثم جاء علي فأدخله ثم قال : [ إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ] رواه مسلم

اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر ایک سیاہ بالوں کی کملی تھی جس پر اونٹ کے کجاووں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں اتنے میں حسن ابن علی ، آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی کملی کے اندر لے لیا پھر حسین آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی حسن کے ساتھ کملی کے اندر لے لیا ، پھر فاطمہ آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی کملی کے اندر لے لیا اور پھر علی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی کملی کے اندر لے لیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا) 33۔ الاحزاب : 33) (یعنی اے اہل بیت ) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم کو (گناہوں اور برائیوں کی ) پلیدی (اور غیراخلاقی وغیر انسانی باتوں کے میل کچیل میں آلود ہونے ) سے بچائے (جیسا کہ اکثر لوگ آلودہ ہوجاتے ہیں ) اور تم کو ایسا پاک صاف رکھے جیسا کہ پاک صاف رہنا چاہئے ۔" ( مسلم )

تشریح :
اس آیت کا سیاق وسباق پوری وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس سے پہلی میں بھی ینسآء النبی لستن کا حد من النسآء کے ذریعہ ازواج مطہرات ہی کو خطاب کیا گیا ہے اور بعد کی آیت میں بھی واذکرن ما یتلی فی بیوتکن میں بھی انہی کا ذکر ہے ۔ رہی یہ بات کہ پھر عنکم الرجس میں جمع مذکر کی ضمیر کیوں لائی گئی ہے تو اس کی وجہ یا تواظہار عظمت ہے یا اہل بیت کے مردوں کی فوقیت وبرتری کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں