آیت مباہلہ اور اہل بیت
راوی:
عن سعد بن أبي وقاص قال : لما نزلت هذه الآية [ ندع أبناءنا وأبناءكم ] دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم عليا وفاطمة وحسنا وحسينا فقال : " اللهم هؤلاء أهل بيتي " رواه مسلم
" حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت : (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَا ءَنَا وَاَبْنَا ءَكُمْ وَنِسَا ءَنَا وَنِسَا ءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ ) 3۔ آل عمران : 61) نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کو بلوایا اور کہا خداوندا ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔" (مسلم )
تشریح :
پوری آیت یوں ہے : (فَمَنْ حَا جَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَا ءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَا ءَنَا وَاَبْنَا ءَكُمْ وَنِسَا ءَنَا وَنِسَا ءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ ) 3۔ آل عمران : 61)
پس جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (قرآن یا دین ) کے بارے میں (اب بھی ) حجت کرے بعد اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم قطعی آچکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کہے کہ آجاو ہم اور تم بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور خود اپنے تنوں کو اور تمہارے تنوں کو ، پھر ہم (سب مل کر ) خوب دل سے دعا کریں بایں صورت کہ اللہ کی لعنت بھیجیں ان پر جو (بارے میں ) ناحق پر ہوں اس آیت کو " آیت مباہلہ" کہا جاتا ہے ۔ مباہل کا لفظ بھل یا بھلۃ سے بنا ہے جس کے معنی لعنت بھیجنے اور لعنت کے ہیں مباہلہ کا مطلب ہوتا ہے : ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا اور ملعون ہوجانے لگا ۔ جس میں تضرع ، خشوع وخضوع اور عاجزی وفروتنی کی صورت بہت زیادہ اختیار کی گئی ہو بہرحال ، عربوں کی یہ عادت تھی کہ جب کسی معاملہ میں دو فریق آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت وتکذیب کرتے اور ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی کا الزام عائد کرتے تو آخر میں اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل کر کسی خاص جگہ پر جمع ہوتے اور ایک دوسرے کے خلاف بددعا کرتے ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے اور یوں دعا مانگتے : یا اللہ ! ہم میں سے جو شخص ناحق پر ہو یا ظالم ہو اس پر لعنت بھیج پس جب نصاری (مسیحوں ) نے دین اسلام یا قرآن کی حقانیت وصداقت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث مباحثہ کا دروازہ کھولا اور پیغمبر اسلام کی مخالفت وتکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ بالا آیت کے ذریعہ حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسیحوں کو مباہلہ کو دعوت دیجئے اور ان سے کہے کہ آؤ برسرعام اپنا فیصلہ کرالیں کہ ہم میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق پر چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عزیز ترین اور قریب ترین اہل بیت کو لے کر مباہلہ کے لئے اس طرح نکلے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین کو جو اس وقت بہت چھوٹے چھوٹے تھے آپ نے گود میں اٹھا رکھا تھا ، حضرت فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھیں ، اور حضرت علی حضرت فاطمہ کے پیچھے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میں جب مباہلہ میں دعا کروں تو تم سب مل کر آمین کہنا مسیحوں کے پیشوا کی نظر ان نورانی چہروں پر پڑی تو اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے بے اختیار بول اٹھا : تم پر افسوس ہے میں نے تو ان نورانی چہروں کو ایسا دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ اللہ سے یوں درخواست کریں کہ پہاڑ کو اس کی جگہ سے اکھیڑ دے تو بالیقین اللہ (ان کی درخواست قبول کرکے ) پہاڑ کو اس کی جگہ سے اکھیڑ دے گا پھر اس نے پر زور انداز میں اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ (ان لوگوں کے ساتھ مباہلہ ہرگز نہ کر نا ورنہ جڑ سے اکھاڑ دیئے جاؤ گے ۔ آخر کار ان مسیحوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مباہلہ نہیں کیا اور جزیہ قبول کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی اطاعت پر مجبور ہوئے ، لیکن ان کے اندر چونکہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے قلبی وابستگی اور مناسبت نہیں تھی اس لئے اسلام میں داخل ہونے سے محروم رہے ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر وہ لوگ مباہلہ کرتے تونتیجہ کے طور پر ان کی صورتیں مسخ ہو کر بندروں اور سوروں کی سی ہوجاتیں ، تمام بیابان وجنگل آگ ہی آگ ہوجاتا اور وہ آگ نہ صرف ان کو بھسم کرکے سرے سے نیست ونابود کردیتی بلکہ درختوں پر پرندوں تک کو جلا دیتی ۔