امارت وخلافت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال اور اس کا جواب
راوی:
وعن علي قال : قيل لرسول الله : من نؤمر بعدك ؟ قال : " إن تؤمروا أبا بكر تجدوه أمينا زاهدا في الدنيا راغبا في الآخرة وإن تؤمروا عمر تجدوه قويا أمينا لا يخاف في الله لومة لائم وإن تؤمروا عليا – ولا أراكم فاعلين – تجدوه هاديا مهديا يأخذ بكم الطريق المستقيم " . رواه أحمد
اور حضرت علی کہتے ہیں کہ کسی نے سوال کیا : یا رسول اللہ! آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد ہم کس کو اپنا امیر وسربراہ بنائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم میرے بعد ابوبکر کو اپنا امیر وسربراہ بناؤ گے تو ان کو امانت دار ، دنیا سے بے پرواہ اور آخرت کی طرف راغب پاؤ گے ۔ اگر عمر کو اپنا امیر وسربراہ بناؤ گے تو ان کو (بار امانت اٹھانے میں ) بہت مضبوط ، امین اور ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے خوف پاؤ گے ، اور اگر علی کو اپنا امیر وسربراہ بناؤ گے ، درآنحالیکہ میرے خیال میں تم ان کو ( اختلاف ونزاع کے بغیر ) اپنا امیر وسربراہ بنانے والے نہیں ہو۔ تاہم جب بناؤ گے تو ان کو راہ راست دکھانے والا (یعنی مکمل مرشد ) بھی پاؤ گے اور کامل ہدایت یافتہ بھی ) جو صراط مستقیم پر چلائیں گے ۔" (احمد )
تشریح :
امانت دار دنیا سے بے پراہ " یعنی حقوق دین کی ادائیگی میں ان سے کوئی خیانت نہیں ہوگی ۔ وہ دین وملت کے معاملہ میں جو بھی حکم وفیصلہ صادر کریں گے ، اس کی بنیاد میں عدل اور دیانت ہی کی کار فرما ہوگی ۔ اسی طرح ان کو دنیا سے کوئی محبت نہیں ہوگی بلکہ ان کی تمام تر توجہ اور دلچسپی آخرت کی طرف ہوگی ۔ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ میرے بعد خلافت وامارت کا استحقاق کے لئے ان اوصاف کو پہلا معیار بنانا چاہیے ، کیونکہ جس شخص میں یہ اوصاف ہوں گے وہ دراصل " اخلاص " کے درجہ کمال پر فائز ہوگا اور " اخلاص " ہی وہ جوہر ہے جو " خلاص یعنی نجات " کو لازم کرتا ہے ایک روایت میں تجدوہ مسلما امینا (تو تم ان کو امانتدار مسلمان پاؤ گے ) کے الفاظ ہیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں تجد وہ قویا فی امر اللہ ضیعفا فی نفسہ ۔ ۔ ۔ ۔ ( تو تم ان کو ایسا انسان پاؤ گے جو اللہ کے معاملہ میں تو سخت اور مضبوط ہوگا اور اپنی ذات کے معاملہ میں کمزور وضعیف ہوگا ۔
ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے خوف ۔" یعنی دین کے معاملہ میں وہ کسی بھی خارجی خوف ومصلحت سے بے نیاز ہوں گے ، شریعت کے نفاذ واشاعت میں کوئی رورعایت نہیں کریں گے ۔ دین وملت کے مفاد میں جو بھی قدم اٹھائیں گے اور جو بھی کاروائی کریں گے اس میں پوری مضبوطی اور استقلال کا ثبوت دیں گے ، نہ کسی مخالف کی مخالفت انہیں خوف زدہ کرے گی ، نہ کسی نکتہ چیں کی نکتہ چینی ان کو متاثر کر پائے گی نہ کسی معترض کا اعتراض ان کو ڈگمگائے گا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا کرسکے گی اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں تجدوہ قویا فی امر اللہ قویا فی نفسہ ۔ (تم ان کو اللہ کے معاملہ میں بھی مضبوط پاؤ گے اور خود ان کی ذات کے معاملہ میں بھی ۔)
اس حدیث میں حضرت عثمان کا ذکر نہیں ہے یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر ہی نہیں کیا تھا یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذکر کیا تھا لیکن راوی ان کا ذکر کرنا بھول گئے ۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ : سب سے پہلے حضرت ابوبکر کا ذکر کرنا خلافت کے بارے میں ان کے تقدم اور ان کی فوقیت کی طرف اشارہ کرتا ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حضرت عثمان کا ذکر صریحا نہیں کیا لیکن حضرت علی کے ذکر میں لااراکم فاعلین (میرے خیال میں تم ان کو اپنا امیروسربراہ بنانے والے نہیں ہو ) کے الفاظ میں حضرت علی پر حضرت عثمان کے تقدم کی طرف اشارہ ضرور ملتا ہے ۔ ویسے ان الفاظ (لااراکم فاعلین کا ایک مطلب تو وہی ہے جس کی طرف ترجمہ میں بین القوسین اشارہ کیا گیا ، یعنی یہ کہ : میرا خیال ہے کہ ان کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع نہیں ہوگا بلکہ ان سے اختلاف کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بھی موجود رہے گی اور ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ : میرا خیال ہے کہ تم لوگ میری وفات کے بعد سب سے پہلے علی کو خلیفہ اور امیر نہیں بناؤ گے کیونکہ قضاء قدر الہٰی سے مجھ کو معلوم ہوگیا ہے کہ علی کی عمر طویل ہوگی اور وہ مذکورہ دونوں آدمیوں یعنی ابوبکر اور عمر سے زیادہ جیئں گے ۔ اگر میرے بعد سب سے پہلے علی ہی خلیفہ وامیر بنائے جائیں تو ان دونوں کی خلافت قائم ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے جو علی سے پہلے فوت ہونے والے ہیں جبکہ ان لوگوں کا خلیفہ ہونا مقدر ہوچکا ہے ۔ یہ مطلب مراد لینے کی صورت میں " خیال میں " (ظن ) کویقین کے معنی میں لیا جائے گا ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یہ فرمایا : مجھے یقین ہے کہ تم میرے بعد سب سے پہلے علی کو خلیفہ اور امیر نہیں بناؤ گے ۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرما یا اس کا حاصل یہ تھا کہ : اے مسلمانو! میرے بعد اہل اسلام کی قیادت اور ملی سربراہی (یعنی خلافت وامارت ) کا معاملہ درحقیقت خود تمہارے اوپر موقوف ہے تم دین وملت کے بارے میں " امین " بھی ہو اور مجتہد بھی ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنی بصیرت اور حق تک پہنچنے کی ایسی ایمانی قوت عطا فرمائی ہے کہ حالات اور تقاضوں کا جائزہ لے کر صحیح فیصلہ پر پہنچ سکتے ہو پس میرے بعد تم اپنے اجتہاد کے ذریعہ جس شخص کی بھی امارت وخلافت پر متفق اور متحد ہوجاؤ گے وہی تمہارا برحق امیر وخلیفہ ہوگا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگوں کا اجماع واتحاد حق وسچائی کے علاوہ کسی بات پر نہیں ہوسکتا حضرت شیخ عبد الحق دہلوی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نص صریح کو صورت میں یہ تعیین کے ساتھ کسی کو بھی اپنا جانشین نامزد مقرر نہیں فرمایا ۔