حضرت ابوعبیدہ کی فضیلت
راوی:
وعن حذيفة قال : جاء أهل نجران إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالوا : يا رسول الله ابعث إلينا رجلا أمينا . فقال : " لأبعثن إليكم رجلا أمينا حق أمين " فاستشرف لها الناس قال : فبعث أبا عبيدة بن الجراح . متفق عليه
اور حضرت حذیفہ بن الیمان (جو کبار صحابہ میں سے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز تھے ) کہتے ہیں کہ نجران کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے پاس (حاکم وقاضی بنا کر ) ایسے شخص کو بھیجئے جو امانت دار ہو یعنی ہمارے حقوق میں کوئی خیانت نہ کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا میں ایک ایسے شخص کو (حاکم یاقاضی بنا کر تمہارے ہاں بھیجوں گا جو امین ہے اور اس لائق ہے کہ امانت دار کہا جائے ۔ (یہ سن کر ) لوگ اس شرف کے حصول کی تمنا اور انتظار کرنے لگے (کہ دیکھیں کون شخص اس منصب کا شرف وامتیاز حاصل کرتا ہے ) حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح کو بھیجا ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح : " نجران " یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جس کو ١٠ھ میں فتح کیا گیا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ " نجران " حجاز اور شام کے درمیان واقع ایک جگہ کا نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمنا اور انتظار کرنے لگے " اس تمنا اور اظہار کا تعلق جاہ طلبی کے جذبہ اور حصول منصب کی خواہش سے ہرگز نہیں تھا بلکہ اس تمنا واشتیاق کی بنیاد صفت امانت سے متصف قرار پانے کی طلب وخواہش تھی ۔