حضرت طلحہ کی فضیلت
راوی:
وعن جابر قال : نظر رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى طلحة بن عبيد الله قال : " من أحب أن ينظر إلى رجل يمشي على وجه الأرض وقد قضى نحبه فلينظر إلى هذا " . وفي رواية : " من سره أن ينظر إلى شهيد يمشي على وجه الأرض فلينظر إلى طلحة بن عبيد الله " رواه الترمذي
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ بن عبیداللہ کی طرف (محبت بھری نظروں سے ) دیکھا اور فرمایا : " جس شخص کی خواہش ہو کہ اس انسان کو دیکھے جو زمین پر چلتا پھرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس انسان (طلحہ ) کو دیکھے ۔" اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جو شخص ایسے شہید کا دیدار کرنا چاہے جو زمین پر چلتا پھرتا ہے تو وہ طلحہ بن عبیداللہ کو دیکھے ۔" (ترمذی )
تشریح :
حقیقت میں وہ مردہ ہے " یہ قضی نحبہ کا ترجمہ ہے ۔ اصل میں تو نحب کے معنی ہیں : منت ماننا، نذر کرنا ، عہد کرنا ۔ لیکن اس کے ایک معنی موت اور اجل کے بھی آتے ہیں چنانچہ قرآن کریم کی اس آیت ! (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَه وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ) 33۔ الاحزاب : 23) من مفسرین نے قضی نحبہ کی تفسیر میں دونوں معنی مرادلئے ہیں ۔ اس لحاظ سے اس حدیث میں بھی قضی نحبہ کو اگرچہ دونوں معنی پر محمول کیا جا سکتا ہے لیکن دوسرے معنی (موت کے مفہوم میں ) مراد لینا زیادہ صحیح اور زیادہ موزوں ہے جیسا کہ دوسری روایت شہید یمشی علی وجہ الارض سے بھی ہے ۔ بہرصورت اس ارشاد گرامی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ طلحہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کی راہ میں اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے سرفروشی اور فدا کاری کا جو عہد کیا تھا اس کو پورا کردیا اور میدان جنگ میں اس نے جان سپاری کے ذریعہ درحقیقت موت کا مزہ چکھ لیا یہ اور بات ہے کہ وہ ابھی زندہ نظر آتا ہے ، یہ معلوم ہی ہے کہ جنگ احد کے دن حضرت طلحہ نے خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال بنا لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ان کے جسم کو کوئی حصہ کوئی عضو زخمی ہونے سے نہیں بچا تھا ۔
بعض حضرات نے لکھا ہے اس حدیث میں حضرت طلحہ کے تعلق سے جو کچھ فرمایا گیا اس میں " درحقیقت اس اختیاری موت " کی طرف اشارہ ہے جو اہل سلوک اور ارباب فناہ کو حاصل ہوتی ہے یا مردہ ہونے " سے ذات باری تعالیٰ کی طرف انجذاب اور ذکر الہٰی اور مشاہدہ ملکوت میں پوری طرح مستغرق ہونے کے سبب عالم شہادت سے غائب ہونا ہے جو دراصل (اختیاری موت ) کانتیجہ ہوتا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " مردہ " کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہو کہ مال کار حضرت طلحہ کو شہادت کی موت اور حسن خاتمہ کی سعادت نصیب ہوگی ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت طلحہ جنگ جمل میں شہید ہوئے ۔