سیدنا علی اور امیر معاویہ کا معاملہ
راوی:
یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ سیدنا علی اور امیر معاویہ کے درمیان جو محاذ آرائی اور جنگ وحصومت واقع ہوئی اس کو" اجتہادی اختلاف ) پر محمول کرنے چاہیے ۔ حضرت علی نے دینی وشرعی طور پر اپنے خلافت کامستحق سمجھا جبکہ امیر معاویہ اپنی خلافت کو برحق جانتے تھے ، دونوں نے اپنے اپنے حق میں اجتہاد کیا یہ اور بات ہے کہ سیدنا علی کا اجتہاد درست ظاہر ہوا اور ثابت ہوگیا کہ اس وقت تمام لوگوں میں امت اسلامیہ کے سب سے بڑے آدمی اور سب سے افضل وہی تھے ، ان کے برخلاف امیر معاویہ اپنے اجتہاد میں درست ثابت نہیں ہوئے کیونکہ حضرت علی کی موجودگی میں وہ خلافت کے ہرگز مستحق نہیں تھے ، لیکن اس کے باوجود فریقین میں سے کسی نے بھی اپنے مخالف فریق کو کافر نہیں کہا دونوں فریق الگ الگ جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے ، دونوں کے درمیان زبر دست معرکہ آرائی بھی ہوئی ، دونوں فریقوں میں سے کچھ لوگوں نے ایک دوسرے کو برا بھی کہا ، ایک دوسرے کے خلاف سب وشتم بھی کیا مگر ان میں سے کسی نے کسی کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا ، اگرچہ ان میں سے بعض لوگ جہالت ونادانی اور تعصب میں مبتلا ہونے کے سبب ایسے امور کے مرتکب ہوئے جن سے ان کا گناہ گار ہونا یقینا ثابت ہوتا ہے ، پس کسی مؤمن کو ہرگز روا نہیں کہ ان میں سے کسی کی بھی طرف کفر کی نسبت کرے اور ان کے بارے میں ایسا عقیدہ وخیال رکھے جو ایک مؤمن کے حق میں رکھ ہی نہیں سکتا ۔"