قیام خلافت
راوی:
جاننا چاہئے کہ امامت وخلافت شرعی طور پر جائز اور قانونی (واجب التسلیم ) یا تو اس صورت میں ہوئی ہے کہ ارباب حل وعقد اس شخص کو امام وخلیفہ تعین وصراحت کے ساتھ کسی ایسے شخص کو اپنا جانشین نامزد کر جائے جو منصب خلافت کی ذمہ ذاریاں نبھانے کی اہلیت ولیاقت رکھتا ہو جیسے حضرت ابوبکر کے نامزد کردینے سے حضرت عمر کی خلافت قائم ہوئی ، نیز اگر کوئی ایسا شخص خلیفہ منتخب ومقرر ہوجائے جو اپنی وجاہت وحیثیت کے اعتبار سے منقول ہو اور اس سے افضل شخص موجود ہو تو اس کی خلافت شرعی اور قانونی طور پر جائز مانی جائے گی کیونکہ خلفاء راشدین کے بعد قریش میں سے ایسے بعض لوگوں کی خلافت پر علماء کا اجتماع ثابت ہے جو اپنے سے افضل لوگوں کی موجودگی میں خلیفہ مقرر ہوئے تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی ایک غیر افضل شخص ملکی وحکومتی اور سیاسی امور میں افضل شخص سے زیادہ باصلاحیت ثابت ہوتا ہے اور اس خصوصی صلاحیت کی بنا پر ایسا شخص دینی معاملات کی بہتر طور پر نگرانی رکھ سکتا ہے ، کاربار حکومت کو کار گر طریقہ سے انجام دے سکتا ہے رعایا کی خبر گیری کرسکتا ہے ، ملک وملت کونقصان پہنچا نے والے فتنوں اور سازشوں سے مؤثر انداز میں نمٹ سکتا ہے اور یہ کہ ملکی وملی استحکام وسا لمیت کو اچھی طرح برقرار رکھ سکتا ہے ۔ رہی بات کہ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ " امامت وخلافت کی سزا وار وہی ذات ہوسکتی ہے جو " معصوم " ہوہاشمی " ہو اور اس کے ہاتھ پر کوئی ایسا معجزہ ظاہر ہو جس سے اس کی راستی اور سچائی جانی جائے " تو یہ محض شیعوں کا خرافاتی نظر یہ ہے اور ان کی جہالت کا آئینہ دار بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی نظریہ ان کی گمراہیوں کی تمہید اور مقدمہ ہے جن کے ذریعہ انہوں نے ملت اسلامیہ میں افتراق وانتشار اور طبقاتی وگروہی محاذ آرائی کی بنیاد ڈالی ۔ ان میں سے ایک بڑی گمراہی تو ان کی یہی ہے کہ وہ حضرت علی کے علاوہ باقی تمام خلفاء کی امامت وخلافت کو بے اصل اور باطل مانتے ہیں ۔