مسجد میں علی کا دروازہ
راوی:
وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أمر بسد الأبواب إلا باب علي . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مسجد نبوی کے اندر) حضرت علی کے دروازہ کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرا دیا تھا ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"
تشریح :
بعض صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی کے اندر تھے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کوئی حائضہ عورت یا کوئی جنبی مرد ان دروازوں کے ذریعہ اپنے گھروں میں آنے جانے کے لئے مسجد کے اندر نہ آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں کے ان دروازوں کو جو مسجد کے اندر واقع ہیں بند کردیں ، ہاں حضرت علی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم سے مستثنیٰ رکھا اور ان کا دروازہ مسجد کے اندر کھلارہنے دیا ۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت ان کو یہ خصوصی اجازت حاصل رہی کہ وہ جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں مسجد کے اندر سے گزر سکتے ہیں ۔ رہی اس حدیث کی بات جو مناقب ابوبکر کے باب میں پیچھے نقل ہوئی ہے اور جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کے دریچہ کے علاوہ اور صحابہ کے گھروں کے ان دریچوں کو بند کردینے کا حکم دیا دو مسجد نبوی میں کھلے ہوئے تھے تو اس حدیث اور اس حدیث کے مابین کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے ، کیونکہ حضرت ابوبکر سے متعلق اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حکم اپنے زمانہ مرض الموت میں دیا تھا جب کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق اس حدیث میں ایسی کوئی وضاحت نہیں ہے ، اس لئے یہی کہا جائے گا کہ یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پہلے دیا تھا اور یہی بات کہ حضرت ابوبکر کی فضیلت وخصوصیت کو ظاہر کرنے والا حکم زمانہ مرض الموت کا ہے ۔علماء کے اس قول کو مضبوط بناتی ہے کہ اس حکم کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ کرنا تھا ، علاوہ ازیں حضرت ابوبکر سے تعلق رکھنے والی حدیث زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے کیونکہ اس کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے جب کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تعلق رکھنے والی اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ، خواہ متن اسناد کے اعتبار اس کو انہوں نے " غریب " قرار دیا ہو یا معنی ومفہوم کے اعتبار سے ۔
ملاعلی قاری نے اس حدیث کے تحت جو بحث کی ہے اس کو ترمذی کا اس حدیث کو " غریب کہنا محل نظر معلوم ہوتا ہے ۔ انہوں نے امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے حضرت زید بن ارقم کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : درحقیقت مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ علی کے دروازہ کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرادوں ۔ ریاض کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس میں احمد نے حضرت زید بن ارقم سے یوں نقل کیا ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کے دروازے مسجد کو ان کی گزر گاہ بنائے ہوئے تھے ، چنانچہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ علی کے سوا اور تمام دروازے بند کردئیے جائیں ۔زید نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سن کر چند لوگوں نے کچھ کلام کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور حمد وثناء کے بعد فرمایا : حقیقت یہ ہے کہ مجھ کو (اللہ کی طرف سے ) حکم ہوا ہے کہ علی کے دروازہ کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرادوں ، اب تم میں سے کچھ لوگوں نے اس بارے میں کلام کیا ہے تو میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ میں نے اس کو بند کرنے کا حکم اپنی طرف سے دیا ہے اور نہ کسی دروازے کو کھلا رکھنے کا استثناء اپنی طرف سے کیا ہے مجھ کو جو حکم جس طرح دیا گیا ہے اسی طرح میں نے نافذ کردیا ہے ، نیز ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ اوپر کی حدیث ابن عباس کی علاوہ حضرت جابر سے بھی منقول ہے ۔ تاہم ملاعلی قاری نے وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث " صحیح " نہیں ہے صحیح وہی حدیث ہے جو ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بخاری ومسلم نے نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر کے دروازہ یا دریچہ کے علاوہ اور کوئی دروازہ یا دریچہ مسجد نبوی میں کھلا نہ چھوڑا جائے ! اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تعلق رکھنے والی حدیث " صحیح " بھی ہو تو ان دونوں حدیثوں کو الگ الگ حالات اور مصالح پر محمول کیا جائے گا تاکہ ان دونوں کے درمیان تضاد اور منافات معلوم نہ ہو۔