لفظ " مولی " کے معنی تمام صحابہ نے کیا سمجھے
راوی:
واقعہ غدیر خم کے دن تقریباً سوالاکھ مؤمنین کا جم غفیر اس موقع پر موجود تھا اور اس اجتماع عظیم میں بکثرت وہ صحابہ کرام بھی موجود تھے جن کے ایمان وعمل اور صدق وامانت کی شہادت کلام اللہ اور کلام رسول میں کثرت کے ساتھ وارد ہے ، اس تمام جماعت مسلمین کی مادری زبان عربی ہی تھی اور اس جماعت میں بڑے بڑے فصحاء و ادبا اور نکتہ دانان الفاظ ومعانی بھی موجود تھے ، بڑا اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سب نے یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی تو اس کا کیا مطلب اخذکیا گیا تھا جو اہل سنت والجماعت بیان کرتے ہیں ، یعنی حضرت علی کی محبت ومودت کی تاکید ، یا وہ مطلب سمجھا گیا تھا جو شیعہ بیان کرتے ہیں ، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت بلافصل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی ولی عہدی کا اعلان ! اس سوال کا واضح جواب ناقابل تردید وجوہ کی بناء پر یہ ہے کہ واقعہ غدیر کے تمام حاضرین نے اس حدیث کے یہ مطلب اور لفظ " مولا " کے معنی وہی سمجھے تھے جو اہل سنت والجماعت بیان کرتے ہیں ان تمام لوگوں نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو متفقہ طور پر حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی ، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اول تسلیم کیا اور حضرت علی کی بیعت خلافت کا انہوں نے کوئی ذکر ہی نہیں کیا تو یہ اس بات کی مضبوط ترین دلیل ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس حدیث سے حضرت علی کی خلافت بلافصل مراد نہیں ہے ۔ نہ تو بات قرین قیاس ہے کہ واقعہ غدیر کے محض دوڈھائی ماہ بعد ہی تقریبا سوا لاکھ آدمیوں کی پوری جماعت حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرتے وقت اس حدیث کو سرے سے بھول گئی ہو اور نہ عقل اس کو تسلیم کرسکتی ہے کہ سوالاکھ اہل ایمان اور ارباب دین ودیانت میں سے سب کے سب اس ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوگئے ہوں ، یا انہوں نے دیدہ دانستہ اس حدیث کو پردہ غفلت میں رہنے دیا ہو ۔علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی جاہئے کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ واقعہ غدیر کے بعد ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی شان وفضیلت اور ان کے استحقاق کو آشکارا کرتے ہوئے ان دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا : میرے بعد تم پر کوئی حاکم حکومت نہ کرے گا ظاہر ہے کہ اگر مذکورہ حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد حضرت علی کو اپنا جانشین اور خلیفہ نامزد کرنا ہوتا تو پھر بعد میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمرخ کو مخاطب کرکے یوں ہرگز نہ فرماتے کہ میرے بعد تم پر کوئی حاکم حکومت نہ کرے گا ۔ واضح دلائل اور براہین کے ذریعہ ثابت ہے کہ اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد حضرت علی کی محبت اور ان سے حسن تعلق قائم رکھنے کی تلقین وتاکید کرنا ہے اور اہل بیت نبوت کے بارے میں اس طرح کی تلقین وتاکید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر ارشاد فرمائی ہے لیکن محبت اور خلافت کے درمیان بہرحال فرق ہے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں ۔