خود حضرت علی سے کس کی تائید حاصل ہوتی ہے
راوی:
شیعوں کی بات تو بعد کی ہے کہ وہ اس حدیث کو حضرت علی کی خلافت بلافصل پر نص قطعی مانتے ہیں اور لفظ " مولیٰ " کے وہ معنی مراد لیتے ہیں جو لغوی نقلی اور عقلی طور پر کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتے ۔ ان سے پہلے تو حضرت علی کی ذات ہے کہ اس حدیث کا براست تعلق بھی انہی سے ہے اور وہی " صاحب معاملہ بھی ہیں لہٰذا دیکھنا چاہئے کہ خود حضرت علی نے بھی اس حدیث کا وہی مفہوم مراد لیا ہے جو شیعہ علماء بیان کرتے ہیں یا ان کے نزدیک حدیث کے وہ معنی ہیں جو اہل سنت والجماعت مراد لیتے ہیں ، جہاں تحقیق ودرایت کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہی نتیجہ اخذکرنا پڑتا ہے کہ حضرت علی کے نزدیک اس حدیث کا وہ مفہوم ومطلب نہیں تھا جو شیعہ علماء بیان کرتے ہیں پہلی دلیل تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان علی الترتیب تینوں کی خلافت ، جو حضرت علی کی خلافت سے مقدم تھی ، اجماع امت کے تحت قائم ہوئی تھی اور حضرت علی اس اجماع میں شامل تھے قطع نظر اس بات کے کہ بعض صریح روایتوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر کا خلیفہ اور جانشین رسول ظاہر ہونا تھا اگر زیر بحث حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام امت پر ان کی افضلیت وبرتری کی طرف کسی بھی صورت میں صراحت یا اشارہ کرتی تو حضرت علی کسی بھی طرح اس اجماع امت میں شامل نہ ہوتے جس نے نہ صرف حضرت ابوبکر کا خلیفہ اول مقرر کیا بلکہ بعد میں حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان کی خلافت قائم کی ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر بقول شیعہ علماء یہ حدیث حضرت علی کے لئے خلافت بلافصل کی نص قطعی ہوتی تو حضرت علی یا حضرت عباس اور یا خاندان نبوت کا کوئی فرد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد ، جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت اور جانشینی کا مسئلہ زیر مشورہ آیا ، اس حدیث کو پیش کرتے اور اس کی بنیاد پر استحقاق علی کا دعویٰ کرتے لیکن ہوا یہ کہ حضرت علی نے تقویت وحمایت حاصل کرنے کے لئے اس حدیث کو بطور دلیل پیش بھی کیا تو اس وقت پیش کیا جب وہ مسند خلافت پر فائز ہوچکے تھے اور گروہ ان کی خلافت سے انحراف کررہا تھا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت علی خوب جانتے تھے کہ یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فورًا وصال کے بعد ان کے استحقاق خلافت پر نص پیش نہیں کرتی ۔ تیسری دلیل یہ کہ بعض صحیح روایتوں کے مطابق خود حضرت علی نے وضاحت کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی چیز منصوص نہیں ہے جس سے ان کی یا کسی دوسرے کی خلافت ثابت ہوتی ہو ، یہاں صرف اس نکتہ پر مرکوز رہنا چاہئے کہ حضرت علی اس حدیث کو اپنی خلافت بلا فصل پر " نص " نہیں مانتے تھے اور چوتھی دلیل وہ روایت ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں آئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر مرض الموت میں ایک دن جب حضرت علی اور حضرت عباس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو حضرت عباس نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر یعنی خلافت کی درخواست کرکے دیکھ لو ، اگر یہ اعزاز ہمارے خاندان میں رہنے والا ہم تو اچھا ہے کہ ہمیں اس کا علم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ذریعہ ہو جائے لیکن حضرت علی نے حضرت عباس کی بات کو نہیں مانا اور صاف انکار کردیا کہ میں ایسی کوئی درخواست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کرونگا ، اس سے بھی بخوبی ثابت ہوا کہ شیعوں کا دعوی سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، اگر یہ حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل کے حق میں نص ہوتی تو اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے اور پوچھنے کی ضرورت کا ہے کو پیش آتی اور حضرت عباس یہ بات کیوں کہتے کہ اچھا ہے اس کا علم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ذریعہ ہو جائے ، درآنحالیکہ اس حدیث اور غدیرخم کا واقعہ دوڈھائی ماہ پہلے ہی پیش آیا تھا اور بالکل قریبی عرصہ کی بات ہونے کے سبب ان دونوں حضرات کے ذہن میں پوری طرح مستحضر تھا ۔