دعویٰ پھر بھی ثابت نہیں ہوتا
راوی:
علماء اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : چلئے ہم نے مانا کہ اس حدیث میں " مولا " کا لفظ " اولی" کے معنی میں ہے ، لیکن یہ کہاں لازم آتا ہے کہ " امامت وحکومت خلافت میں اولی " سے مراد ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " قرابت اور اتباع میں اولی " کے معنی مراد ہوں ، اس کا قرینہ قرآن کی اس آیت میں موجود ہے ۔
آیت (اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ )
3۔ آل عمران : 68) " حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سب سے زیادہ خوصیت اور قرابت وہ لوگ رکھتے ہیں تھے جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا۔"
اور شیعوں کے پاس دلیل قاطع تو درکنار کوئی ظاہر تر دلیل بھی ایسی نہیں ہے جو اس احتمال کو نفی کرنے والی ہو ، اور پھر چلئے ہم نے یہ بھی مان لیا کہ " امامت وحکومت میں اولی " مراد ہے لیکن یہ تو بتایا جائے کہ اس لفظ (اولی ) سے بلا کسی مزید صراحت کے " فی الحال اور بلا فصل کی قید کا لزوم کس دلیل کے تحت مان لیا گیا ہے ۔ ایسی کوئی بھی دلیل اور واضح قرینہ موجود نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ اگر اس لفظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے " اولی بالحکومت " مراد لیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ بھی تھی کہ علی اس وقت سے میرے ولی عہد ہیں اور میرے پہلے جانشین مقرر ہوگئے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کے اعتبار سے " اولی بالحکومت " مراد لیا ہو یعنی آپ نے اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا ہو کہ کبھی نہ کبھی ایک ایسا وقت آئے گا جب علی ہی تمام مسلمانوں میں سب سے افضل وبرتر ہوں گے اور امامت وخلافت کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معنی میں تو اہل سنت والجماعت بھی حضرت علی کو اولی بالخلافت تسلیم کرتے ہیں ۔ جب ان کا وقت آیا تو مسلمانوں کے ارباب حل وعقد نے ان کو والی بالخلافت قرار دے کر منصب خلافت راشدہ پر انھی کو متمکن کیا اور اس وقت اہل اسلام میں سب سے افضل وبرتر وہی قرار پائے ، مختصر یہ کہ " مولا " کو " اولی " کے معنی میں مان لینے کے بعد بھی شیعوں کا دعوی کسی طرح ثابت نہیں ہوتا ۔