لفظ " مولا " کے معنی
راوی:
اب آئیے یہ دیکھیں کہ شیعہ جس لفظ " مولا " کی بنیاد پر اس حدیث کو حضرت علی کے استحقاق خلافت بلافصل پر نص صریح قرار دیتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے " مولا " کے ایک دو نہیں کئی معنی ہیں : رب ، مالک ، آقا ، مددگار ، دوست ، تابع ، پیروی کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی ، حلیف ، داماد ، آزاد کردہ غلام اور احسان مند وغیرہ وغیرہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی کلام میں کوئی ایسا لفظ لایا گیا ہو جو مختلف معانی رکھتا ہو اور ان میں سے کچھ معنی ایک دوسرے سے ترادف واشتراک بھی رکھتے ہوں تو ان میں سے کسی خاص معنی کو متعین اور مراد لینا اس صورت میں معتبر ہوگا جب کہ اس کی کوئی دلیل اور اضح قرینہ موجود ہو، یا اگر وہ لفظ متنازعہ بن گیا ہو تو اس معنی کو مراد لینا زیادہ صحیح مانا جاتا ہے جس میں قدر مشترک پایا جاتا ہو اس اصول کے تحت اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ لفظ " مولا " کے معنی حاکم و والی مراد لینا صحیح نہیں ہے ، صحیح تو دوست ومددگار مراد لینا ہیں کیونکہ اول تو سیاق حدیث کا واضح قرینہ اور دلیل اس معنی کے حق میں ہے ، دوسری دلیل یہ کہ لفظ " مولا " کا امام یعنی حاکم والی کے معنی میں مستعمل ہونا معہود ومعملوم نہیں ہے نہ لغت میں اور نہ شرع میں اور ائمہ لغت میں سے کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ " مفعل " بمعنی (اولی) میں آتا ہے یعنی یہ تو کہا جاتا ہے کہ یہ چیز فلاں چیز سے اولی ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ چیز فلاں چیز سے " مولا " ہے دوسرے یہ کہ خود شیعہ حضرت علی کو پوری امت کا دوست ومحبوب ومددگار ہیں پس اس قدر مشترک کے اعتبار سے اس لفظ کے یہ معنی مراد لینا زیادہ موزوں ہے ۔ رہی یہ بات کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی مفہوم مراد لیا تھا تو پھر اس کو اتنے اہتمام سے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ یہ بات سب ہی کو معلوم تھی تو اس موالات کے بیان کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ کوئی بھی شخص علی سے بغض وعناد نہ رکھے ۔ اس تنبیہ کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ لوگوں کو جمع کیا جاتا اور پھر علی کی عظمت وبزرگی ثابت کرنے کے لئے ان الفاظ میں ان کی منقبت بیان کی جاتی ۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یوں فرمایا الستم تعلممون انی والی بالمؤمنین اور پھر بعد میں جو دعا فرمائی وہ بھی انہی الفاظ کی جہت ومناسبت سے رکھی ، واضح ہو کہ یہ روایت جن دوسرے طرق سے منقول ہے ان میں سے بعض طرق میں پہلے تو اہل بیت نبوت کا عموماً ذکر ہے اور پھر حضرت علی کا خصوصی ذکر ہے ، اس سے یہی ثابت ہوتا ہم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد تمام اہل بیت خصوصا حضرت علی کی محبت و توقیر کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور اس بارہ میں تاکید کرنا تھا بعض روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ یہ ارشاد نبوت دراصل اس ضرورت کے تحت تھا کہ بعض صحابہ کو اس شکوہ پر تنبیہ کی جائے جس کا انہوں نے حضرت علی کے خلاف اظہار کیا تھا ۔ یہ وہ صحابہ تھے جو ایک خاص مشن پر حضرت علی کے ساتھ یمن گئے تھے ۔ جب یہ صحابہ بشمول حضرت علی حجۃ الوداع کے موقعہ پر یمن سے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک حج ہوئے تو انہوں نے حضرت علی کی نسبت بعض معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ شکایات بیان کیں جو اہل یمن کی بعض غلط فہمیوں کے سبب پیدا ہوئی تھیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض صحابہ نے حضرت علی کی کسی بات کا انکار بھی کیا تھا ان صحابہ میں ایک صحابی بریدہ اسلمی بھی تھے ، صحیح بخاری کی روایت میں جس کو ذہبی نے بھی صحیح قرار دیا ہے یوں سے کہ : جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی شان میں ان صحابہ کے شکایتی الفاظ سنے تو (غصہ کے مارے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا اور فرمایا : اے بریدہ ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اہل ایمان کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں " اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو اوپر حدیث میں ہیں ، بات چونکہ بہت اہم تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ جمع کیا اور تاکیداً ان کے سامنے مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی ۔"