شیعوں کا استدلال
راوی:
شیعہ جماعت جن احادیث اور روایتوں سے حضرت علی کی خلافت بلافصل اور ان کی اولیت وافضلیت پر استدلال کرتی ہے ان میں سے اس حدیث کو وہ نہایت مضبوط اور قوی تر دلیل دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ" مولا " کے معنی " عزیز ومحبوب اور مددگار " کے نہیں ہیں بلکہ دراصل یہ لفظ " اولی بالخلافت " کے معنی میں ہے ، وہ اپنی دلیل میں ماقبل عبارت کے الفاظ انی اولی بالمؤمنین پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارہ میں جو یہ الفاظ فرمائے تھے ان کے معنی یہ ہیں کہ " میں اہل ایمان پر خود ان کے نفس سے زیادہ تصرف وحکومت کا حق رکھتا ہوں " وہ کہتے ہیں کہ اگر ان الفاظ کے معنی " اہل ایمان کے نزدیک ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ومحبوب مراد ہوتے تو محض اس بات کو بیان کرنے کے لئے " صحابہ کو اس قدر اہتمام سے جمع کرنے ان کو اتنی اہمیت کے ساتھ اور اس پر زور انداز میں مخاطب کرنے اور حضرت علی کے حق میں مذکورہ دعاکرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ بات اتنی واضح اور عام تھی کہ تمام صحابہ جانتے اور مانتے تھے ۔علاوہ ازیں جو دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے حق میں کی وہ اس ذات کے علاوہ اور کسی کے حق میں ہو ہی نہیں سکتی جو امام معصوم مفروض الطاعتہ ہو ۔ اس طرح شیعہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کم حق میں جو " ولا " اپنے لئے بیان کیا وہی " ولا " حضرت علی کے لئے بھی واضح طور پر ثابت ہوا پس یہ حدیث حضرت علی کی خلافت بلافصل کے حق میں نص وقطعی وصریح ہے ۔