غدیر خم کا واقعہ
راوی:
وعن البراء بن عازب وزيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما نزل بغدير خم أخذ بيد علي فقال : " ألستم تعلمون أني أولى بالمؤمنين من أنفسهم ؟ " قالوا : بلى قال : " ألستم تعلمون أني أولى بكل مؤمن من نفسه ؟ " قالوا : بلى قال : " اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه " . فلقيه عمر بعد ذلك فقال له : هنيئا يا ابن أبي طالب أصبحت وأمسيت مولى كل مؤمن ومؤمنة . رواه أحمد
حضرت براء بن عازب اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غدیر خم میں پڑاؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کو جمع کیا اور جیسا کہ ایک روایت میں ہے ، اونٹوں کے پلانوں کا منبر بنا کر اس پر کھڑے ہوئے اور پھر ) حضرت علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا : ( اے میرے اصحاب!) یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں ؟ سب نے عرض کیا جی ہاں ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا : تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ عزیز و محبوب ہوں ! صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! جس شخص کا میں دوست ہوں علی اس کا دوست ہے ۔ الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور تو اس شخص کو اپنا دشمن قرار دے جو علی سے دشمنی رکھے " اس واقعہ کے بعد حضرت عمر جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے تو ان سے بولے ابن ابی طالب مبارک ہوتم تو صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی (یعنی ہر آن وہرلمحہ ) ہر مسلمان مرد وعورت کے دوست ومحبوب ہو۔" (احمد )
تشریح :
" غدیرخم" ایک مقام کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے مابین حجفہ کے قریب واقع ہے ، مکہ سے حجفہ کا فاصلہ تقریبا ٥٠،٦٠میل ہے اور حجفہ سے " غدیرخم" تین چار میل کے فاصلے پرہے ۔١٠ھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے سفر واپسی میں یہاں قیام فرمایا تھا اور اس وقت صحابہ کی بہت بڑی تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھی جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرکے حضرت علی کے حق میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے ۔
یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو قرآن کریم کی اس آیت (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ) 33۔ الاحزاب : 6) (نبی اہل ایمان کے نزدیک خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ومحبوب ہیں ) کی طرف متوجہ کیا ، نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے تھے ۔
" میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی العموم " اہل ایمان " کا لفظ ارشاد فرمایا تھا ، پھر اسی بات کو دوہرانے کے لئے اور زیادہ وضاحت کی خاطر " ایک ایک مؤمن " کا لفظ استعمال فرمایا ۔ بہرحال ان الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ ایک ایک مؤمن جو مجھ کو اپنی جان سے بھی زیادہ رکھتا ہے تو اس کی ایک خاص یہ ہے کہ میں اہل ایمان کی انہی باتوں کا حکم دیتا ہوں جوان کی دینی یادنیاوی بھلائی وبہتری اور فلاح ونجات کی ضامن ہیں جب کہ ان کا اپنا نفس ، بتقضائے بشریت ان کو برائی اور بگاڑکی طرف بھی لے جانا چاہتا ہے ، اور یہ انسان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ وہ جس ذات کو ہر آن اپنا خیرخواہ پاتا ہو اس کو ذات سے زیادہ عزیز ومحبوب رکھے جوہر آن یا کبھی کبھار ہی سہی بدخواہی پر آمادہ پائی جاتی ہو ۔
" الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک روایت میں یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یوں منقول ہیں :
الہم احب من حبہ وابغض من ابغضہ وانصر من انصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار ۔
" الہٰی تو اس شخص کو محبوب رکھ جو علی کو محبوب رکھے اور اس شخص سے بغض رکھ جو علی سے بغض رکھے اور اس شخص کی مدد کر جو علی کا مدد گار ہو اس شخص کی مدد نہ کر جو علی کی مدد نہ کرے اور حق کو علی کے ساتھ رکھ کہ جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے ۔"