مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 711

علی علم وحکمت کا دروازہ ہیں

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا دار الحكمة وعلي بابها " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب وقال : روى بعضهم هذا الحديث عن شريك ولم يذكروا فيه عن الصنابحي ولا نعرف هذا الحديث عن أحد من الثقات غير شريك

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : میں حکمت ودانائی کا گھر ہوں اور علی اس گھر کا دروازہ ہیں " اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ : بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک تابعی سے نقل کیا ہے لیکن ان کی اس حدیث کی اسناد میں صنابحی کا ذکر نہیں ہے (جیسا کہ ان کی اور روایتوں کے سلسلہ اسناد میں اس کا نام کا ذکر آتا ہے ) نیز اس روایت کوثقات میں شریک کے علاوہ اور کسی سے ہم نہیں جانتے ۔"

تشریح :
ایک روایت میں یوں آیا ہے انا مدینۃ العلم وعلی بابہا (یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہرکا دروازہ ہیں ) ایک اور روایت میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں فمن اراد العلم فلیاتہ من بابہ (یعنی پس جو شخص حصول علم کا آرزومند ہو اس کو اس دروازہ کے ذریعہ آنا چاہئے ۔"
بہرحال " علی " دروازہ ہیں " سے یہ مراد نہیں ہے کہ تنہا علی ہی دروازہ ہیں ، بلکہ یہ معنی مراد ہیں کہ علی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں تاہم اس معنی میں بھی صرف حضرت علی کا ذکر ان کی فضیلت اور تکریم کا ظاہر کرتا ہے اور واقع میں حضرت علی ایسا رتبہ رکھتے بھی ہیں، اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ طبقہ صحابہ میں علم وحکمت کا جو خصوصی درجہ کمال سیدنا علی کو حاصل ہے وہ چند ہی صحابہ کو نصیب ہوا اور اس اعتبار سے سیدنا علی کو اگر اکثر صحابہ کی بہ نسبت سب سے زیادہ علمی فضیلت وبزرگی رکھنے والا کہا جائے توغیر موزوں نہیں ہوگا ۔ رہی یہ بات کہ اس روایت کے ظاہری معنی کے مطابق تنہا علی کو دروازہ کیوں قرار دیا جائے اور دوسرے صحابہ کو بمنزلہ اور دروازہ کیوں مانا جائے ، تو اس سلسلہ میں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اکتساب فیض کرنے والے تمام ہی صحابہ امت کے لے مدار علم ہیں امت تک دین کا جو بھی علم پہنچا ہے وہ تمام صحابہ نے مشترک طور پر پہنچایا ہے ، کسی بھی صحابی کے بارہ میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس امت کو علم نبوت تنہا اسی نے منتقل کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علوم دین کا واحد مدار اسی کی ذات ہے ۔ اس کی دلیل میں بہت سی حدیثیں پیش کی جا سکتی ہیں ان میں سے ایک حدیث تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی ارشاد ہے کہ : اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیممیرے تمام صحابہ آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاؤ گے علاوہ ازیں یہ بات تاریخی اور واقعاتی طور پر ثابت شدہ ہے کہ تابعین نے دین وشریعت کے جو مختلف علوم وفنون اخذکئے جیسے قرأۃ تجوید ، تفسیر ، حدیث اور فقہ وغیرہ ، وہ سب انہوں نے تنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اخذ نہیں کئے بلکہ تمام صحابہ سے اخذ کئے ہیں لہٰذا اس کے علاوہ چارہ نہیں کہ " بابیت یعنی علم وحکمت کے شہر کے دروازہ ہونے ) کو تنہا حضرت علی کے حق میں منحصر نہ رکھا جائے ۔ہاں اگر قضا (عدالت ومنصفی ) کا علم وفن کے ساتھ مخصوص کرکے حضرت علی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ان کی ذات بے مثال تھی اور اس باب میں وہ تمام صحابہ پر فضیلت وبرتری رکھتے تھے تو یقینا بجا ہوگا کیونکہ ان کے حق میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے : انہ اقضاکم علی سب سے بڑے قاضی ہیں جیسا کہ حضرت ابی کے حق میں فرمایا انہ اقراء کم (ابی تم میں سب سے بڑے قاری ہیں ) اور حضرت معاذ بن جبل کے حق میں فرمایا انہ اعلمکم بالحلال والحرام تم میں حلال وحرام کا علم سب سے زیادہ رکھنے والے ہیں ۔
علامہ طیبی لکھتے ہیں : شیعہ اس حدیث میں مذکورتمثیل سے تمسک کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم وحکمت پہنچنے کا واحد ذریعہ حضرت علی ہیں ان کے واسطہ کے بغیر کسی کو اس (علم وحکمت ) میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ گھر میں داخل ہونے کا اصل ذریعہ دروازہ ہی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے وا تو البیوت من ابوبہا اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو علم وحکمت کا گھر بتایا ہے اور اس گھر کا دروازہ حضرت علی کو قرار دیا ہے ، اس لئے حضرت علی وہ " دروازہ " ہیں جس کے ذریعہ علم وحکمت کے " گھر " میں رسائی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیعہ جو کچھ کہتے ہیں اس کی ذرہ برابر دلیل اس حدیث میں نہیں ہے ، بلاشبہ حضرت علی کو علم وحکمت کا گھر جنت کے گھر سے زیادہ وسیع وفراخ نہیں ہے ؟ جب جنت کے آٹھ دروازے ہیں تو علم وحکمت کے گھر کے دروازے اس سے زیادہ کیوں نہیں ہوسکتے ۔
آخر میں یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس حدیث کا اصل ناقل ابی الصلت عبد السلام بن صلاح ہروی ہے جو اگرچہ شیعہ ہے لیکن محدیثن کے نزدیک " راست گو " ہے علاوہ ازیں اس حدیث کے بارے میں محدیثن کم اختلافی اقوال ہیں بعض محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے تو بعض نے حسن ۔ اسی طرح بعض نے اس کو " ضعیف " قرار دیا ہے تو بعض نے کہا ہے کہ " منکر " ہے یحیی بن معین نے کہا ہے کہ اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور کچھ لوگوں نے اس کو " موضوع " قرار دینے کی بھی کوشس کی ہے تاہم حافظ ابوسعید نے وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث کی باعتبارطرق کے " حسن " ہے نہ صحیح ہے نہ ضعیف اور نہ موضوع ، نیز محدیثن نے اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے : انا مدنیۃ العلم وابوبکر اساسہا وعمر حیطانہا وعثمان سقفہا وعلی بابہا : یعنی علم کا شہر ہوں ، ابوبکر اس شہر کی بنیاد ہیں ، عمر اس شہر کی فصیل ہیں ' عثمان اس شہر کی چھت ہیں اور علی اس شہرکا دروازہ ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں