مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 700

شیعوں کی کج رائی

راوی:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہے گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کو شیعہ لوگ " ماروگھٹنا پھوٹے آنکھ " کے مصداق اپنے بے بنیاد عقیدے کی دلیل بنا کر بیٹھ گئے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو " خلافت " کا بار سونپا تھا ۔ لہٰذاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلافت کا اولین استحقاق حضرت علی کا تھا ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ روافض نے تو اس کج رائی کا شکار ہو کر تمام صحابہ کو کافر " تک کہہ ڈالا ہے ، اس وجہ سے کہ ان کے بقول ان صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت سے انحراف کیا اور خلافت کے بارے میں حضرت علی پر دوسرں کو مقدم کیا ، بلکہ ان میں سے بعض ستم ظریفوں نے تو حضرت علی کو بھی نہیں بخشا اور کہا ہے کہ حضرت علی نے چونکہ اپنا حق طلب نہیں کیا اور خلافت کا دعویٰ لے کر مضبوطی سے نہیں اٹھے اس لئے وہ بھی کافر ایسے نادانوں سے بس یہی کہنا چاہئے کہ تم سے بڑا کافر کون ہوسکتا ہے جو لوگ تمام امت کو کافر کہیں خصوصا طبقہ اول (صحابہ ) پر کفر کا اطلاق کریں اور اس طرح گویا یہ ثابت کریں کہ وہ پوری شریعت کو غیر معتبر قرار دے رہے ہیں اور اسلام کی ساری عمارت کو ڈھا رہے ہیں تو ان کے کفر میں کس کو شک ہوگا ۔
بہرحال اہل سنت والجماعت نے اس حدیث سے شیعوں کے مذکورہ استدلال کو " دوراز کار " قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الفاظ حدیث سے جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنا خلیفہ محض اس عرصہ کے لئے بنایا تھا جو غزوہ تبوک کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر گزارا تھا ، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو اس عرصہ کے لئے اپنی قوم پر خلیفہ بنایا تھا ، جو انہوں نے چلہ کے لئے کوہ طور پر گزارا تھا اگر اس عرصہ کے لئے حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنانا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس بات کی وصیت کرنا یا اس طرف اشارہ کرنا ہوتا کہ اسی طرح میرے وصال کے بعد بھی خلیفہ علی ہونگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر حضرت علی کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ نہ دیتے کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ نہیں بنے تھے ، وہ حضرت موسی علیہ السلام کے انتقال سے چالیس سال پہلے ہی وفات پا چکے تھے ، علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنی عدم موجودگی اسی عرصہ میں امامت نماز کے لئے اپنا خلیفہ ایک دوسرے صحابی حضرت ام مکتوم کو بنا یا تھا چنانچہ اس عرصہ میں حضرت علی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال کی خبر گیری اور حفاظت کے فرائض انجام دیتے تھے اور حضرت ام مکتوم نماز میں لوگوں کی امامت کرتے تھے ، اگر خلافت مطلق ہوتی تو اصول کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امامت نماز کی ذمہ داری بھی یقینا حضرت علی ہی کو سونپ کر جاتے ، اس کے لئے ایک دوسرے آدمی کو نامزد نہ فرماتے ۔

یہ حدیث شیئر کریں