حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان
راوی:
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب وفضائل بے شمار ہیں جتنی زیادہ حدیثیں آپ کی تعریف وتوصیف اور فضیلت میں منقول ہیں اتنی صحابہ میں سے کسی کے حق میں منقول نہیں ہیں ، اگرچہ ان میں سے بہت سے روایتیں " موضوع " (گھڑی ہوئی ) بھی ہیں چنانچہ حضرت شیخ مجد الدین شیرازی نے جس طرح ان بعض روایتوں کے بارے میں ، کہ جو حضرت ابوبکر صدیق کے مناقب میں نقل کی گئی ہیں ، یہ وضاحت کی ہے کہ یہ موضوع روایتیں ہیں کیونکہ ان کا بے اصل وبے بنیاد ہونا معمولی عقل وفہم رکھنے والا بھی جان سکتا ہے اسی طرح انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کے مناقب میں لوگوں نے بے شمار جھوٹی حدیثیں بنالی ہیں اور ان جھوٹی حدیثوں کا سب سے بڑا ذخیرہ وہ ہے جس کو انہوں نے " وصایا " نامی کتاب میں جمع کیا ہے اور جس کی ہر حدیث یا علی کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے ۔ہاں ان میں سے صرف ایک حدیث یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی بے شک ایسی حدیث ہے جو ثابت ہے ۔ بہرحال حضرت علی کی مناقب میں سے جو صحیح احادیث منقول ہیں ان کے بارے میں امام احمد اور امام نسائی وغیرہ نے کہا ہے کہ ان کی تعداد ان احادیث سے کہیں زیادہ ہے جو دوسرے صحابہ کے حق میں منقول ہیں ، اور سیوطی نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ متاخر ہیں اور ان کے زمانہ میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ونزاع کی خراب صورت حال پیدا ہوگئی تھی بلکہ خود سیدنا علی کی مخالفت کرنے والوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جنہوں نے ان کے خلاف جنگیں بھی لڑیں اور ان کی خلافت سے انحراف بھی کیا ، لہذا علماء اور محدیثین نے مقام علی کی حفاظتی اور مخالفین علی کی تردیدوتغلیط کی خاطر منقبت علی سے متعلق احادیث کو چن چن کر جمع بھی کیا ، اور ان احادیث کو پھیلانے میں بہت سرگرم جدوجہد بھی کی ، ورنہ جہاں تک خلفاء ثلاثہ کے مناقب کا تعلق ہے تو وہ حقیقت میں حضرت علی کے مناقب سے بھی زیادہ ہیں ۔