" خلافت کی پیشین گوئی اور منصب خلافت سے دستبر دار ہونے کی ہدایت :
راوی:
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " يا عثمان إنه لعل الله يقمصك قميصا فإن أرادوك على خلعه فلا تخلعه لهم " . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي في الحديث قصة طويلة
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عثمان سے ) فرمایا کہ اے عثمان ! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ شائد تمہیں ایک کرتہ (یعنی خلعت خلافت ) پہنا دے ۔ پس اگر تمہارے لوگ اس کرتہ کو اتروانا چاہیں اور تمہیں اس پر مجبور کریں تو ان کی وجہ سے اس کرتہ کو ( ہرگز ) نہ اتارنا، اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے اس حدیث کے ضمن میں ایک طویل (درد ناک ) داستان ہے ۔"
تشریح :
اگر لوگ " اس حدیث کا مطلب یہ تھا کہ اگر لوگ تمہاری خلافت وحکومت کے تئیں باغیانہ اور معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے تم سے مطالبہ کریں کہ منصب خلافت چھوڑ دو تو ان لوگوں کے کہنے میں ہرگز نہ آنا اور محض ان کے مفسدانہ مطالبہ پر خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا کیونکہ وہ لوگ باطل پر ہوں گے ، اور تم حق وراستی پر ہوگے ، ان کا مقصد تمہاری خلافت کا خاتمہ کرکے ملت اسلامیہ میں افتراق وانتشار پھیلانا ہوگا ، جب کہ تمہاری خلافت حق وصداقت کی سربلندی اور ملت کی شیرازہ بندی کی علامت ہوگی پس یہی وہ حدیث تھی جس نے حضرت عثمان کو خلافت کے باغیوں اور مفسدوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے باز رکھا ۔ انہوں نے ان ظالموں کے محاصرہ میں جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہزار اصرار اور ہزار مطالبوں کے باوجود منصب خلافت سے دستبرداری اختیار نہیں کی ۔'
" ایک طویل داستان ہے " ان الفاظ کے ذریعہ ترمذی نے ان پر فتن حادثات و واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جو حضرت عثمان کی خلافت کے آخری زمانے میں پیش آئے تھے اور جن سے اسلام کی شوکت اور مسلمانوں کا شیرازہ بندی کو بڑا نقصان پہنچا مصر میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقرر کردہ گورنر ( عبداللہ ابن ابی سرح ) کے خلاف مصریوں کا شکایت لے کر حضرت عثمان کے پاس آنا ، مصریوں کی شکایت اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صحابہ کے مشورہ پر حضرت عثمان کا عبداللہ ابن سرح کو معزول کردینا اور محمد ابن ابی بکر کو نیا گورنر مقرر کرکے مصر روانہ کرنا ، مروان کی سازش اور جعلسازی کے نتیجہ میں محمد ابن ابی بکر کا مصر نہ پہنچنا اور اثناء راہ سے واپس آجانا ، اس کے نتیجہ میں مصریوں اور ان کے ہمنواؤں کا مشتعل ہو کر حضرت عثمان کے مکان کا محاصرہ کرنا اور پھر ان کے ہاتھوں حضرت عثمان کا مظلومانہ طور پر شہید ہوجانا ، وہ المناک اور لرزہ خیز واقعات ہیں جن پر وہ " درد" ناک طویل داستان " مشتمل ہے اور جو دراصل اسلام اور ملت اسلامیہ کی تاریخ میں فتنہ وفساد کی ابتداء مانے جاتے ہیں ان کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔