مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عثمان کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 682

حضرت عثمان کی ایک فضیلت

راوی:

وعن أنس قال : لما أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم ببيعة الرضوان كان عثمان رضي الله عنه رسول رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى مكة فبايع الناس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن عثمان في حاجة الله وحاجة رسوله " فضرب بإحدى يديه على الأخرى فكانت يد رسول الله صلى الله عليه و سلم لعثمان خيرا من أيديهم لأنفسهم . رواه الترمذي

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بیت رضوان کا حکم دیا تو اس وقت حضرت عثمان غنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ خصوصی کی حیثیث سے مکہ گئے ہوئے تھے ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے (جاں نثاری کی ) بیعت لی اور (جب تمام مسلمان بیعت کرچکے اور حضرت عثمان وہاں موجود نہیں تھے تو ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان ! اللہ (کے دین ) اور اللہ کے رسول کے کام پر گئے ہوئے ہیں اور (یہ کہہ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ہاتھ جو حضرت عثمان کی طرف سے تھا باقی تمام صحابہ کے ان ہاتھوں سے کہیں افضل وبہتر تھا جو ان کے اپنی طرف سے تھے ۔" (ترمذی )

تشریح :
بیعت رضوان " اس بیعت کو کہتے ہیں جو مکہ سے تقریبا پندرہ سولہ میل کے فاصلہ پر مقام حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں سے لی تھی۔ یہ نام قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے جو اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی تھی۔
(لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) 48۔ الفتح : 18)
" بالتحقیق اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت (سمر ) کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔"
اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ ذی قعدہ ٦ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اہل اسلام کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ عمرہ کے لئے مکہ روانہ ہوئے جب حدیبیہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش مکہ نے مسلمانوں کو عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونے کی اجازت سے انکار کر دیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو اپنا نمائندہ خصوصی بنا کر قریش مکہ کے پاس روانہ کیا تاکہ وہ ان کو سمجھائیں ۔ کہ مسلمانوں کی آمد کا مقصد جنگ وجدال نہیں ہے بلکہ صرف عمرہ کرنا ہے لہٰذا اہل مکہ کو چاہئے کہ مسلمانوں کو عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونے دیں ، حضرت عثمان اپنے مشن پر مکہ میں تھے کہ یہاں حدیبیہ میں مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان کو اہل مکہ نے قتل کردیا ہے یہ شہرت سن کر ۔ یہ شہرت سن کر مسلمانوں میں سخت اضطراب وہیجان پیدا ہوگیا ، اور طے ہوا کہ خون عثمان کا بدلہ لیا جائے گا ، چنانچہ اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام مسلمانوں سے اس بات کا عہد واقرار لیا کہ اپنی جانوں کی بازی لگا کر خون عثمان کا بدلہ اہل مکہ سے لیں گے ، صحابہ میں ایک ایک آدمی آتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مار کر بیعت کرتا تھا ، جب سب لوگ بیعت کرچکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان کے ہاتھ کے قائم مقام کیا اور اس ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر گویا حضرت عثمان کی طرف سے بیعت کی ۔ اس طرح حضرت عثمان کو خصوصی فضیلت حاصل ہوئی ، کہ اگر وہ خود اس موقعہ پر موجود ہوتے ، اور اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مار کر بیعت کرتے جیسا کہ اور لوگوں نے کیا تو ان کو یہ شرف نصیب نہ ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ان کے ہاتھ کے قائم مقام ہوا اور اس بناء پر ان کی طبیعت گویا سب لوگوں کی طبیعت سے افضل واشرف رہی ۔ پس اس موقع پر ان کا غیر موجود ہونا ان کے مرتبہ میں نقصان کا باعث نہ ہوا بلکہ فضیلت اور منقبت کا سبب بن گیا بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جس ہاتھ کو حضرت عثمان کے ہاتھ کے قائم مقام کیا تھا وہ بایاں ہاتھ تھا لیکن زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ دایاں ہاتھ تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں