راہ اللہ میں مالی ایثار
راوی:
وعن عبد الرحمن بن خباب قال : شهدت النبي صلى الله عليه و سلم وهو يحث على جيش العسرة فقام عثمان فقال : يا رسول الله علي مائتا بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله ثم حض على الجيش فقام عثمان فقال : علي مائتا بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله ثم حض فقام عثمان فقال : علي ثلاثمائة بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله فأنا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم ينزل عن المنبر وهو يقول : " ما على عثمان ما عمل بعد هذه ما على عثمان ما عمل بعد هذه " . رواه الترمذي
اور حضرت عبدالرحمن ابن خباب بیان کرتے ہیں : اس وقت میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک میں حاضر تھا جب آپ جیش عسرۃ (جنگ عسرۃ) کی مالی امداد کے لئے لوگوں کو جوش دلا رہے تھے ۔ حضرت عثمان (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پر جوش تلقین سن کر) کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی راہ میں کام آنے کے لئے سو اونٹ مع ان کی جھولوں اور پالانوں کے میں اپنے ذمہ لیتا ہوں (یعنی اس جنگ کے لئے میں اللہ کی راہ میں سو اونٹ مع ان کے سازو و سامان کے پیش کرتا ہوں ) اس کے بعد (اسی مجلس میں یا کسی اور موقع پر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر لوگوں کو اس جنگ کے لئے امداد ومعاونت کی طرف متوجہ اور راغب کیا تو حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ (پہلے سو اونٹوں کے علاوہ مزید ) دو سو اونٹ مع ان کی جھولوں اور پالانوں کے اللہ کی راہ میں اپنے ذمہ لیتا ہوں ۔ پس (حضرت عبدالرحمن ابن خباب کہتے ہیں کہ ) میں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اس عمل کے بعد اب عثمان جو بھی کریں ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ، اس کے بعد اب عثمان جو بھی کریں ان سے ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔" (ترمذی )
تشریح :
جیش عسرۃ اس اسلامی لشکر کو کہتے ہیں کہ جو غزوہ تبوک کے لئے تیار کیا گیا تھا ۔ دراصل " عسرۃ " تنگی اور مالی اور بدحالی کو کہتے ہیں اور وہ زمانہ کہ جنگ تبوک کا مرحلہ درپیش تھا مسلمانوں کے لئے سخت عسرت وتنگی کا تھا ، ایک طرف تو خشک سالی اور قحط نے نہ صرف یہ کہ غذا اور پانی کی کمیابی کے سبب انسانوں کو درخت کے پتے کھانے اور منہ کی خشکی دور کرنے کے لئے اونٹوں کی اوجھڑی نچوڑنے پر مجبور کر رکھا تھا، دوسری طرف مسلمانوں کی کمی اور ان کے مقابلہ پر دشمنوں کی کثرت ، محاذ جنگ کی نہایت دوری سامان جنگ اور زاد راہ کی کمی، شدید گرمی اور دھوپ اور بے سروسامانی کی پریشانی نے نہایت سخت صورت حال پیدا کر رکھی تھی ۔ اس لئے جنگ تبوک کے لشکر کا نام جیش عسرۃ(پریشان حال لشکر ) ہوگیا ۔"
اس روایت کے مطابق حضرت عثمان نے چھ سو اونٹ اس لشکر کے لئے اللہ کی راہ میں پیش کئے ، پہلی مرتبہ سو اونٹ پیش کئے ، پھر دو سو اونٹ اور پھر تین سو اونٹ ، اس طرح کل ملا کر چھ سو اونٹ کی پیش کش ان کی طرف سے ہوئی ۔ اور بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت عثمان نے غزوہ تبوک کے ساڑھے نوسو اونٹ اپنی طرف سے پیش کئے تھے ۔ اور ہزار کا عدد پورا کرنے کے لئے پچاس گھوڑے بھی دئیے تھے ۔
حضرت عثمان کے اس زبردست مالی ایثار اور ان کے حوصلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ ارشاد فرمائے اور اہمیت ظاہر کرنے کے لئے بار بار ارشاد فرمائے ان کا حاصل یہ تھا کہ عثمان کا یہ عمل نہ صرف یہ کہ ان کے گزشتہ گنا ہوں اور لغزشوں کا کفارہ بن گیا ہے بلکہ آئندہ بھی بالفرض ان سے کوئی خطا صادر ہو تو وہ اس عمل کے سبب معاف ہوجائے گی پس ان الفاظ میں گویا اس بشارت کی طرف اشارہ تھا کہ عثمان کو خاتمہ بخیر کی سعادت حاصل ہوگی ۔ اور ایک شارح نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اس عمل کے بعد عثمان اب اگر از قسم نفل (نہ کہ ازقسم فرض ) کوئی عبادت اور کوئی نیک کام نہ کریں تو ان کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ ان کا یہ عظیم عمل تمام نفل عبادتوں اور نیکیوں کے واسطے کافی ہوگیا ہے ۔