مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ ابن صیاد کے قصہ کا بیان ۔ حدیث 68

ابن صیاد ، دجال ہے

راوی:

وعن محمد بن المنكدر قال رأيت جابر بن عبد الله يحلف بالله أن ابن الصياد الدجال . قلت تحلف بالله ؟ قال إني سمعت عمر يحلف على ذلك عند النبي صلى الله عليه وسلم فلم ينكره النبي صلى الله عليه وسلم . متفق عليه .

" اور حضرت محمد ابن منکدر تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں ! ( حالانکہ ابن صیاد کا دجال ہونا صرف ظنی ہے نہ کہ یقینی ) انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنا ، وہ اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھا تے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار نہیں فرمایا ( اگر یہ بات یقینی نہ ہوتی تو یقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات کا انکار کرتے ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
ہو سکتا ہے کہ حضرت جابر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قسم کھانا اس بات پر ہو کہ ابن صیاد ، ان دجالوں ( یعنی جھوٹوں اور غریبوں میں سے ایک ہے جو وقتا فوقتا اس امت میں پیدا ہوتے رہیں گے اور اپنی نبوت کا دعوی کرکے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور شکوک وشبہات میں مبتلا کریں گے گویا ان دونوں کی قسم کا تعلق اس بات سے نہیں تھا کہ ابن صیاد واقعۃ دجال ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے معاملہ کو مبہم رکھ کر گویا اس بات کی تردید فرما دی تھی کہ وہ یقینی طور پر دجال ہے ! لیکن روایت کے الفاظ میں مطلق دجال کا ذکر ہے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزدیک دجال معہود ہی مراد تھا اس صورت میں ان دونوں کی قسم کو غلبہ ظن کے وقت قسم کھا لینے کے جواز پر محمول کیا جائے گا نیز آگے دوسری فصل میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت آرہی ہے اس میں انہوں نے صراحۃ بیان کیا ہے کہ ابن صیاد دجال معہود تھا پس ہو سکتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک بھی یہی رہا ہو بہر حال یہ بات پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ ابن صیاد کے سلسلہ میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف واشتباہ تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں