ابن صیاد کا ذکر
راوی:
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال لقيته وقد نفرت عينه فقلت متى فعلت عينك ما أرى ؟ قال لا أدري . قلت لا تدري وهي في رأسك ؟ قال إن شاء الله خلقها في عصاك . قال فنخر كأشد نخير حمار سمعت . رواه مسلم . ( متفق عليه )
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن سر راہ ) میری ملاقات ابن صیاد سے ہوگئی، اس وقت اس کی آنکھ سوجی ہوئی ( اور ورم آلود تھی ، میں نے پوچھا کہ تیری اس آنکھ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں ( یعنی ورم ) یہ کب سے ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا کب سے ہے میں نے کہا " تجھ کو نہیں معلوم حالانکہ آنکھ تیرے سر میں ہے " اس نے کہا کہ اگر اللہ چاہے تو آنکھ کو تمہارے عصا میں پیدا کر دے ابن عمر کہتے ہیں کہ ( اس کے بعد ) ابن صیاد نے اپنی ناک سے گدھے کی اتنی سخت آواز کی مانند کہ جو میں نے سنی ہے ) ایک آواز نکالی ۔ " ( مسلم )
تشریح :
آنکھ کو تمہارے عصا میں پیدا کر دے " اس جملہ سے ابن صیاد کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ جمادات ( یعنی بے حس وحرکت اشیاء جیسے پتھر اور لکڑی وغیرہ ) میں سے کسی چیز میں آنکھ لگا دے اور پھر اس آنکھ میں درد پیدا ہو جائے تو اس چیز کو نہ آنکھ کا احساس ہوگا اور نہ آنکھ کے اس درد کا تو اسی طرح یہ عین ممکن ہں کہ کسی ایسے انسان کی آنکھ میں تکلیف کی کوئی علامت پیدا ہو جائے جو ہر وقت ذہنی ( جسمانی طور پر مشغول ومستغرق رہتا ہو تو اس کو کثرت اشتغال اور ہجوم افکار کی وجہ سے اس درد وتکلیف کا احساس نہ ہوگا ! ۔