مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 664

حضرت عمر کی ایک بڑی کرامت

راوی:

مستند کتابوں میں معتبر وثقہ راویوں کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو وہاں کے عام (گورنر) حضرت عمر وبن العاص مقرر ہوئے ان سے ایک دن مصریوں نے آکر کہا کہ زمانہ قدیم سے دریائے نیل ہر سال ایک کنواری نوجوان لڑکی کی بھینٹ لیتا چلا آیا ہے ، جب تک یہ بھینٹ نہیں دی جاتی پانی جاری نہیں ہوتا ۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہر سال چاند کی گیارہویں کی رات کو ایک نوجوان لڑکی کو اس کے والدین کی رضا مندی کے ساتھ بیش بہا کپڑے اور عمدہ زیور پہنا کر اور خوب بناؤ سنگھار کرکے دریا میں ڈال دیتے ہیں ، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو دریا خشک ہونے لگتا ہے اور پھر شہروں اور دیہاتوں میں پانی کی کمی کے سبب قحط پڑ جاتا ہے ، حضرت عمروبن العاص نے مصریوں سے کہا کہ یہ ایک بے ہودہ رسم ہے چونکہ اسلام میں اس طرح کی لغویات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس لئے میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا چنانچہ اس سال یہ رسم نہیں کی گئی اور دریائینیل تقریباً سوکھ گیا ، پورے مصر میں قحط وخشک سالی کی سی کیفیت پیدا ہوجانے کے سبب اہل مصر ترک وطن پر مجبور ہونے لگے۔ حضرت عمر و بن العاص نے صورت حال کی تفصیلی رپورٹ حضرت عمر فاروق کی خدمت میں روانہ کی فاروق اعظم نے یہ رپورٹ دیکھی اور عمر وبن العاص کو لکھا کہ تم نے اس رسم پر عمل کرنے کی اجازت نہ دے کر بالکل ٹھیک کیا ، واقعی اسلام اس طرح کی رسوم کی بیخ کنی کرتا ہے میں ایک پر چہ بھیج رہا ہوں تم اس کودریائے نیل میں ڈال دینا اس پر چہ میں لکھا تھا ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم بندہ اللہ عمر بن الخطاب امیر المؤمنین کی جانب سے دریائے نیل کے نام ۔ بعد حمد وصلوۃ (اے دریائے نیل !) اگر تو اپنے اختیار اور اپنی قوت سے بہتا ہے تو مجھ کو تجھ سے کچھ نہیں کہنا ہے ، اور اگر اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مرضی سے تو بہتا ہے تو میں اللہ واحدوقہار کے نام پر تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ جاری اور رواں ہوجا ، عمر و بن العاص عامل مصر نے اس پر چہ کو دریائے نیل میں ڈال دیا اور صبح اٹھ کر لوگوں نے دیکھا کہ ایک ہی رات میں دریائے نیل سولہ ہاتھ اوپر آگیا ہے اور پورے زور شور کے ساتھ رواں ہے اور پھر ہر سال چھ ہاتھ بڑھتا رہا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے باشندگان مصر کی اس قدیم رسم کا خاتمہ کر دیا اور اس دن سے اب تک دریائے نیل برابر جاری ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں