دین وملت کی غم گساری
راوی:
وعن المسور بن مخرمة قال : لما طعن عمر جعل يألم فقال له ابن عباس وكأنه يجزعه : يا أمير المؤمنين ولا كل ذلك لقد صحبت رسول الله صلى الله عليه و سلم فأحسنت صحبته ثم فارقك وهو عنك راض ثم صحبت أبا بكر فأحسنت صحبته ثم فارقك وهو عنك راض ثم صحبت المسلمين فأحسنت صحبتهم ولئن فارقتهم لتفارقنهم وهم عنك راضون . قال : أما ما ذكرت من صحبة رسول الله صلى الله عليه و سلم ورضاه فإنما ذاك من من الله من به علي وأما ما ذكرت من صحبة أبي بكر ورضاه فإنما ذلك من من الله جل ذكره من به علي . وأما ما ترى من جزعي فهو من أجلك وأجل أصحابك والله لو أن لي طلاع الأرض ذهبا لافتديت به من عذاب الله عز و جل قبل أن أراه . رواه البخاري
اور حضرت مسور ابن مخرمہ کہتے ہیں : حضرت عمر فاروق (ابو لؤلؤ کے خنجر سے ) زخمی ہوئے تو کرب یابے چینی کا اظہار کرنے لگے (یعنی ان کی عیادت کے لئے آنے والوں کو ایسا لگتا تھا جیسے فاروق اعظم زخم کی اذیت سے شدید کرب اور بے چینی میں ہیں جس کا اظہار کراہ وغیرہ کی صورت میں ہورہا ہے ) چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے (یہ صورت دیکھ کر ) گویا حضرت عمر کو فزع اور بے صبری کی نسبت دی (یایہ کہ حضرت عمر کو تسلی وتشفی دی ) اور کہا کہ امیرالمؤمنین !یہ سب (یعنی جزع وفزع اور بے قراری وبے صبری کا اظہار آپ کی شان کے شایاں ) نہیں ہے آپ تو وہ ہستی ہیں جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت کا شرف حاصل ہوا اور بہت اچھی صحبت حاصل ہوئی (بایں طور کہ ) آپ نے رفاقت رسول کا کامل حق ادا کیا اور تمام تر آداب وشرائط پورے کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وخدمت سے فیضیاب ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں آپ سے ہوئے کہ آپ سے راضی وخوش تھے (جس کا ثبوت یہ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے ) پھر ابوبکر کی رفاقت ومجالست آپ کو نصیب ہوئی اور ان کے ساتھ بھی آپ کی رفاقت بہت اچھی رہی یہاں تک کہ جب وہ آپ سے جدا ہوئے تو آپ سے خوش تھے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے آپ ہی کو اپنا نے جانشین نامزد فرمایا اور پھر (اپنی خلافت کے زمانہ میں) آپ مسلمانوں کو خدمت ورفاقت کا موقع ملا اور ان کی خدمت ورفاقت کا فریضہ بھی آپ نے بڑی اچھی طرح نبھایا (کہ مسلمانوں کے ساتھ عدل وانصاف ، رعایا پروری اور کامیاب ترین حکمرانی میں آپ کے نام کا ڈنکا چار دوانگ عالم میں بج اٹھا) اب اگر مسلمانوں سے جدا ہونگے تو اس حال میں جدا ہوں گے کہ تمام مسلمان آپ سے راضی وخوش ہیں ۔فاروق اعظم نے ( یہ سن کر) فرمایا : (اے عباس ) تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی کا جو ذکر کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بڑااحسان ہے جو اس نے محض اپنے فضل وکرم سے مجھ پر کیا ہے ، اسی طرح تم نے حضرت ابوبکر کی صحبت و رفاقت اور ان کی خوشنودی کا جو ذکر کیا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ایک بڑا احسان ہے جس کے ذریعہ اس نے محض اپنے فضل وکرم سے مجھے سرفراز کیا ۔ رہی میری بے صبری وبے قراری جو تم دیکھ رہے ہو تو (اس کا تعلق زخم کی تکلیف اور درد وبے چینی پر جزع ونزع سے نہیں ہے بلکہ درحقیقت ) یہ تمہارے اور تمہارے دوستوں اور ساتھیوں کے سبب سے ہے ۔خدا کی قسم اگر میرے پاس تمام زمین کے برابر سونا ہو تو میں اس کو اللہ کے عذاب کے بدلے میں قربان کردوں اس سے پہلے کہ میں اللہ کو (یا اللہ کے عذاب کو ) دیکھوں ۔" (بخاری )
تشریح :
حضرت ابن عباس نے گویا اس طرف اشارہ کیا کہ جب اللہ کا رسول آپ سے راضی وخوش گیا اللہ کے رسول کا چہیتا آپ سے راضی وخوش ہے اور آپ اپنے اللہ سے راضی وخوش ہیں اس صورت میں تو آپ اس ارشاد ربانی کی بشارت کا مصداق ہیں :
یایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔
" اے اطمینان والی روح تو اپنے پروردگار (کے جوار رحمت ) کی طرف چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش ۔"
پھر آپ اتنا پریشان کیوں ہیں ، اتنی بے قراری کیوں ہے ، اس زخم کی تکلیف نے آپ کو بے چین کردیا ہے یا موت کے تصور نے ؟ موت تو مؤمن کے لئے تحفہ ہے وہ تحفہ جو مقام اعلی میں بندہ کو اپنے آقا سے ملائے گا ، رضائے مولیٰ کی ابدی نعمتوں اور سعادتوں تک پہنچائے گا ۔
حضرت عمر نے حضرت ابن عباس کو جو جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ محض تمہارا خیال ہے کہ میری بے چینی وبے قراری زخم کی تکلیف یا موت کے خوف سے ہے ، درحقیقت میرا یہ سارا اضطراب اور اظہار کرب تم لوگوں (اہل اسلام ) کے مستقبل کے بارے میں چند خطرات وخدشات کا احساساتی تاثر ہے ۔ میں ڈرتا رہا ہوں کہ کہیں میرے بعد فتنے سر نہ ابھارنے لگیں ، اختلاف وانتشار اور دین سے بے توجہی کی خرابیاں مسلمانوں میں نہ درآئیں ، فتنہ وفساد کے وہ دروازے جن کو میں نے ملت اسلامیہ پر بڑی مضبوطی سے بند کر رکھا تھا ڈھیلے نہ پڑجائیں علاوہ ازیں خود اپنے بارے میں آخرت کا خوف بھی میرے لئے کچھ کم اضطرب انگیز نہیں ہے بے شک حق تعالیٰ نے مجھے بڑی بڑی سعادتوں سے نوازا اور اس دنیا میں مجھ پر بے پایاں فضل وانعام فرمایا لیکن میں نے حق تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں جو جو کو تاہیاں کی ہیں ان پر آخرت میں مواخذہ بھی ہوسکتا ہے ، اگر عدل الٰہی نے مجھے مستوجب عذاب گردان دیا تو کیا حشر ہوگا ، استیعاب میں منقول ہے کہ : حضرت عمر فاروق جب زخمی ہو کر گرے تو اپنے بیٹے حضرت عبداللہ ابن عمر کی گود میں سر رکھے پڑے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے : ظلوما لنفسی غیرانی مسلم اصلی صلاتی کلہا واصوم : میں نے اپنے نفس پر بڑا ہی ظلم کرنے والا ہوں باوجودیکہ میں مسلمان ہوں ، تمام نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں ۔