وہ چار باتیں جن میں عمر کو فضیلت حاصل ہوئی
راوی:
وعن ابن مسعود قال : فضل الناس عمر بن الخطاب بأربع : بذكر الأسارى يوم بدر أمر بقتلهم فأنزل الله تعالى [ لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما أخذتم عذاب عظيم ] وبذكره الحجاب أمر نساء النبي صلى الله عليه و سلم أن يحتجبن فقالت له زينب : وإنك علينا يا ابن الخطاب والوحي ينزل في بيوتنا ؟ فأنزل الله تعالى [ وإذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب ] وبدعوة النبي صلى الله عليه و سلم : " اللهم أيد الإسلام بعمر " وبرأيه في أبي بكر كان أول ناس بايعه . رواه أحمد
اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ : حضرت عمر ابن خطاب کو دوسروں پر چار باتوں کے سبب خصوصی فضیلت حاصل ہے ۔ ایک بات تو جنگ بدر کے قیدیوں کے بابت ان کی رائے تھی ، یہ کہنا تھا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
(لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِ يْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ) 8۔ الانفال : 68) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہو چکتا ( کہ خطاء اجتہادی کا مرتکب مستوجب عذاب نہیں ہوگا یا کوئی بری سزا واقع ہوتی ۔ دوسری بات پردہ کی بابت ان کا مشورہ دینا تھا ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو پردہ (میں رہنے ) کی طرف متوجہ کیا تھا اور (ان کے توجہ دلانے پر) ام المؤمنین حضرت زینب نے ان سے کہا تھا کہ اے عمر ابن خطاب ! پردہ میں رہنے کی بات ہم سے تم کہہ رہے ہو حالانکہ وحی ہمارے گھروں میں اترتی ہے ؟ اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی :
(فَسْ َ لُوْهُنَّ مِنْ وَّرَا ءِ حِجَابٍ ) 33۔ الاحزاب : 53) (یعنی اور جب تم ان (ازواج النبی ) سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو ) تیسری بات وہ دعا ہے تھی جوان کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی تھی کہ الہٰی : عمر کے ذریعہ اسلام کو تقویت عطا فرما ۔ اور چوتھی بات ابوبکر کے حق میں ان کی رائے تھی کہ انہوں نے (حضرت ابوبکر کو خلیفہ اول بنانے کی تجویز پیش کرکے بڑے نازک وقت میں تمام مسلمانوں کی بروقت راہنمائی کی اور اپنی زبردست قوت اجتہاد کے ذریعہ انہی کو خلافت اول کا اہل ومستحق جان کر ) سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیت کی (اور پھر ان کی پیروی میں اور سب لوگوں نے خلافت صدیق پر بیت کی ) (احمد )
تشریح :
جنگ بدر کے قیدیوں کی بابت ان کی رائے تھی " اس کی تفصیل خود حضرت عمر ایک روایت میں جو ریاض الصالحین میں منقول ہے ۔ یوں بیان کرتے ہیں کہ : جنگ بدر کے دن (جب اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو فتح وغلبہ عطا فرمایا اور قیدیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ لگی تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مشاورت منعقد کی اور ان قیدیوں کے بارے میں مشورہ چاہا ۔ حضرت ابوبکر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان قیدیوں میں سب اپنے ہی رشتے ناطے کے لوگ ہیں ، کوئی چچا کا بیٹا ہے تو کوئی بھائی کا بیٹا ہے ، کوئی خاندان کا فرد ہے تو کوئی قبیلے کا ، اگر ہم ان سب سے فدیہ (مالی معاوضہ ) لے کر ان کو رہا کردیں تو اس سے ہمیں دشمنان دین کے مقابلہ کے لئے اگلی تیاریوں میں بڑی مدد ملے گی اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رہا ہونے والوں کو ہدایت فرمادے اور یہ اسلام قبول کرکے ہمارے معاون ومدد گار بن جائیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابو بکر کی یہ رائے سن کر ) فرمایا کہ عمر ! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ابوبکر کی رائے کو موزوں نہیں سمجھتا ، دراصل یہ سارے قیدی کفر وضلالت کی پیشوائی کرنے والے اور دشمنان دین کے سردار ہیں ، ان کو زندہ چھوڑ نا دینا خطرہ مول لینا ہے ، ان سب کی گردنیں اڑا دینا ہی مناسب ہے آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر ان قدیوں کو رہا کر دیا ۔ اگلے دن صبح کو جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر گریاں ولرزاں بیٹھے ہوئے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر تو ہے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ رفیق (ابو بکر ) رو کیوں رہے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمر !(کیا پوچھتے ہو ، سمجھو بس اللہ نے خیر ہی کردی ، نہیں تو ) عذاب تو میرے سامنے اس درخت سے بھی قریب آگیا تھا (جو بالکل سامنے نظر آرہا ہے ) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے :
(مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَه اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67 لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِ يْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 68 ) 8۔ الانفال : 68-67)
" پیغمبر کو شایاں نہیں کہ ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کردیئے جائیں ) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح (دشمنان دین کی) خونریزی نہ کرلیں ۔ تو تم دنیا کے مال واسباب چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ آخرت (کی مصلحت ) کو چاہتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست اور بڑے حکمت والے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکتا تو جو امر تم نے اختیار کیا ہے اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی ۔"
اس سے واضح ہوا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں انسب رائے وہی ہے تھی جو حضرت عمر نے ظاہر کی تھی ۔ حضرت ابوبکر کی رائے اس مصلحت پر مبنی تھی کہ اس وقت اہل اسلام کے لئے مالی تنگیوں اور پریشانیوں کا بڑا نازک مرحلہ درپیش ہے ۔ دشمنان دین اس جنگ میں ہزیمت خورہ ہونے کے باجود اپنی معاندانہ روش کو ترک نہیں کریں گے ۔ مسلمانوں کے خلاف ان کے جارحانہ عزائم جوں کے توں ہیں اور وہ اپنی مالی وانسانی قوت کو مجتمع کرکے اہل اسلام کو پھر میدان جنگ میں لانے کی کوشش کریں گے ۔ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اپنے خونی رشتہ داروں اور اعزاواقرباء کو اپنے ہاتھوں قتل کیا گیا ۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس احسان کو خود یہ قیدی محسوس کریں ، اور ان کو ایمان قبول کرنے اور ہمارا مدد گار بن جانے کی توفیق مل جائے " دوسری طرف فدیہ کی شکل میں ان سے حاصل ہونے والا مال واسباب ہماری بڑی مدد کرے گا اس کے ذریعہ ہم اپنی طاقت بڑھائیں گے اور دشمنان دین سے لڑنے کے لئے جنگی وسائل وذرائع فراہم کریں گے ایک اعتبار سے یہ رائے حضرت ابوبکر کی " صفت جمال " کا مظہر بھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں جن حضرات کے مزاج میں نرمی اور مروت کا زیادہ دخل تھا ان سب نے بھی اس رائے کی تائید کی ۔ دوسری طرف حضرت عمر کی رائے ان کی" صفت جلال " کا مظہر تھی اور جن صحابہ پر اس صفت کا غلبہ تھا انہوں نے حضرت عمر کی رائے کی تائید کی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ تمام صفات وکمالات کے جامع تھے مگر واقعہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مائل " صفت جمال " ہی کی طرف تھے اور اسی وجہ سے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا ۔ تاہم اللہ کی علیم وخبیر ذات کے علاوہ اور کون اس فیصلہ کے اصل عواقب ونتائج کو جان سکتا تھا ، اس کی بارگاہ حکمت میں قیدیوں کی رہائی کا یہ فیصلہ غیرموزوں قرار پایا اور اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں جن سے حضرت عمر کی اصابت رائے کی توثیق ہوئی ۔