عمر کی باتوں سے لوگوں کو سکینت وطمانیت ملتی تھی
راوی:
وعن علي رضي الله عنه قال : ما كنا نبعد أن السكينة تنطق على لسان عمر . رواه البيهقي في " دلائل النبوة "
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ (اہل بیت یاجماعت صحابہ ) اس بات کو بعید نہیں جانتے تھے کہ حضرت عمر کی زبان پر سکینت وطمانیت جاری ہوتی ہے ۔ (اس روایت کو بیہقی نے دالنبوۃ میں نقل کیا ہے ) ۔"
تشریح :
حضرت علی کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عمر فاروق اعظم کو یہ خصوصیت حاصل کہ وہ جب بھی کوئی مسئلہ ومعاملہ میں اظہار خیال کرتے ہیں تو ایسی بات کہتے ہیں جس سے سننے والوں کو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے ۔ اور مضطرب سے مضطرب دل کو بھی قرار آجاتا ہے ۔ یا " سکینہ " سے مراد فرشتہ بھی ہوسکتا ہے جو حق اور موزوں بات دل میں ڈالتا ہے اور پھر وہی بات زبان سے ادا ہوتی ہے ۔ اس کی تائید حضرت علی کی ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس کو طبرانی نے اوسط میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا " لوگو! جب صالحین کا تذکرہ کرو تو عمر کے تذکرہ کو مقدم رکھو۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ ان کا قول الہام ہو اور وہ فرشتہ کی زبانی بیان کررہے ہوں ۔"
اس سلسلے میں اس روایت کو بھی سامنے رکھنا چاہئے جس میں منقول ہے کہ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : میں نے جب بھی عمر کو دیکھا تو (ایسا محسوس ہوا کہ ) ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان فرشتہ موجود ہے جوان کو صحیح راستہ بتا رہا ہے ۔