حضرت عمر کی علمی بزرگی
راوی:
وعن ابن عمر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " بينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت حتى إني لأرى الري يخرج في أظفاري ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب " قالوا : فما أولته يا رسول الله ؟ قال : " العلم " . متفق عليه
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں سو رہا تھا کہ (خواب میں ) دودھ سے بھرا ہوا پیالہ لا کر مجھے دیا گیا ، میں نے اس دودھ کو پیا ، پھر میں نے دیکھا کہ (زیادہ ہونے کے سبب اس دودھ کی ) تری اور تازگی میرے ناخنوں سے پھوٹ رہی ہے اور پھر میں نے بچایا ہوا دودھ عمر بن الخطاب کو (پینے کے لئے ) دے دیا ، بعض صحابہ نے (یہ سن کر ) عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس دودھ کی تعبیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں فرمایا : علم !۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
علماء نے لکھا ہے کہ علم کی صورت مثالیہ عالم بالا میں دودھ ہے ، اسی لئے اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ قرار پاتی ہے ۔ کہ اس شخص کو خالص ونافع علم نصیب ہوگا علم اور دودھ کے درمیان وجہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح دودھ انسانی جسم کی پہلی غذا اور بدن کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ اسی طرح انسانی روح کی پہلی غذا اور اس کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ ہے ۔ بعض عارفین نے یہ لکھا ہے کہ عالم مثال سے تجلی علم کا انعکاس صرف چار چیزوں یعنی پانی ، دودھ شراب اور شہد کی صورت میں ہوتا ہے اور یہی وہ چار چیزیں ہیں جن کی نہرین بہہ رہی ہیں ۔قرآن کریم نے ان چارنہروں کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے :
آیت (مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِيْهَا اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّا ءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُه وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ڬ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى) 47۔ محمد : 15)
" جنت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بو نہیں کرے گا اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلے گا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے (سراسر) لذت ہیں اور شہد مصفا کی نہریں ۔"
پس جس شخص نے (خواب میں ) پانی پیا اس کو علم لدنی عطا ہوگا ، جس شخص نے دودھ پیا اس کو اسرار شریعت کا علم عطا ہوگا ، جس شخص نے شراب پی اس کو علم کمال عطا ہوگا اور جس نے شہد پیا اس کو بطریق وحی علم عطا ہوگا ۔ اور عارفین ہی میں سے بعض نے اس ضمن میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جنت کی یہ چاروں نہریں درحقیقت چاروں خلفاء سے عبارت ہیں اور اس عتبار سے حدیث بالا میں دودھ کی نسبت سے صرف حضرت عمر کا ذکر ہونا نہایت موزوں ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر حضرت عمر کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں عرب کے تمام قبائل (کے اہل علم ) کو جمع کرکے رکھا جائے اور پھر وزن کیا جائے تو حضرت عمر کے علم کے علم کا پلڑا ان سب کے علم سے وزن میں بھاری رہے گا اور اسی وجہ سے تمام صحابہ کا اعتقاد تھا کہ دس حصوں میں سے نوحصے علم تنہا حضرت عمر پاگئے ہیں ۔