دین کی شان وشوکت سب سے زیادہ حضرت عمر نے دوبالا کی
راوی:
وعن ابی سعید قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " بينا أنا نائم رأيت الناس يعرضون علي وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي ومنها ما دون ذلك وعرض علي عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره " قالوا : فما أولت ذلك يا رسول الله ؟ قال : " الدين " . متفق عليه
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک دن ) جب کہ میں سورہا تھا تو (خواب میں ) کیا دیکھتاہوں کہ (میری امت کے ) کچھ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا جارہا ہے ، وہ سب کرتا پہنے ہوئے تھے ہوئے تھے جن میں بعض کے کرتے تو ان کے سینے تک تھے اور بعض کے کرتے ان سے بھی چھوٹے تھے ۔ پھر جب عمر بن خطاب میرے سامنے پیش ہوئے تو ان کا کرتا اتنا لمبا تھا کہ زمین سے گھسٹ رہا تھا بعض صحابہ نے (یہ سن کر ) پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! (عمر کے اس لمبے کرتے کی ) تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا بیان فرماتے ہیں ؟ فرمایا دین ومذہب ! (بخاری ومسلم )
تشریح :
اور بعض کے کرتے ان سے بھی چھوٹے تھے " یعنی بعض لوگوں کے جسم کے کرتے تواتنے تھے جو سینے تک پہنچتے تھے ۔ اور بعض لوگوں کے کرتے اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے سینے تک بھی نہیں پہنچتے تھے بلکہ سینے سے اوپر تھے ۔ ومنہا مادون ذلک کا مطلب عام طور پر یہی بیان کیا گیا ہے مگر ملا علی قاری نے اس جملہ کی وضاحت کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہ معنی بھی ہیں اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کے کرتے ان کے کرتوں سے لمبے تھے ۔
حضرت عمر کے کرُتے کی درازی کی تعبیر میں " دین ومذہب " کے ذکر سے یہ مراد ہے کہ عمر کی ذات سے دین کو تقویت حاصل ہوگی اور کیونکہ ان کی خلافت کا زمانہ طویل ہوگا لہٰذا ان کے زمانہ میں دین کی شان وشوکت نہایت درجہ دوبالا ہوگی ، بے شمار شہر وملک فتح ہوں گے اور ان فتوحات کے نتیجہ میں بیت المال کی آمدنی وسیع تر ہوجائے گی ، یا یہ کہ دین کو کرُتے کے ساتھ تشبیہ دینا گویا اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ جس طرح انسان کا لباس نہ صرف یہ کہ اس کے وجود کی زیبائش وآرائش اور مختلف پر مضر اثرات سے حفاظت وآرام کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ حقیقت میں اس کے جسم کا لازمی تقاضہ بھی ہوتا ہے اسی طرح دین نہ صرف یہ کہ انسان کی تہذیب وشائستگی اور اس کے روحانی اطمینان وسکون کا ذریعہ اور دونوں جہاں میں اس کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے بلکہ حقیقت میں انسانیت کا لازمی جزء اور انسانی فطرت سلیم کا عین تقاضا بھی ہے ۔